طالبان 100 سے زائد سابق حکومتی اہلکاروں، دیگر کو قتل کرچکے ہیں، اقوام متحدہ

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2022
رپورٹ کے مطابق ان ہلاکتوں میں سے دو تہائی سے زیادہ ماورائے عدالت قتل تھے — فائل فاٹو: رائٹرز
رپورٹ کے مطابق ان ہلاکتوں میں سے دو تہائی سے زیادہ ماورائے عدالت قتل تھے — فائل فاٹو: رائٹرز

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان اور ان کے اتحادیوں نے مبینہ طور پر سابق افغان حکومت کے 100 سے زائد ارکان، سیکیورٹی اہلکاروں اور بین الاقوامی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افراد کو قتل کردیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ رپورٹ افغانستان کی نئی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید پامالی کو بیان کرتی ہے، سیاسی مخالفین کے قتل کے علاوہ خواتین کے حقوق اور احتجاج کے حق پر بھی قدغن لگادی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ حکومت کے سابق ارکان، سیکیورٹی فورسز اور بین الاقوامی فوجی دستوں کے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے عام معافی کے اعلانات کے باوجود ’یو این اے ایم اے‘ کو ان افراد کے قتل، جبری گمشدگیوں اور دیگر خلاف ورزیوں کی مستند خبریں موصول ہو رہی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کو اس طرح کی ہلاکتوں کی 100 سے زیادہ مستند رپورٹیں موصول ہوچکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مغرب نے افغانستان کیلئے امداد، بنیادی حقوق کی فراہمی سے مشروط کردی

رپورٹ کے مطابق ان ہلاکتوں میں سے دو تہائی سے زائد ماورائے عدالت قتل تھے جو افغانستان کی موجودہ حکومت یا ان سے وابستہ افراد نے کیے تھے۔

اس کے علاوہ انسانی حقوق کے محافظ اور میڈیا ورکرز مسلسل حملوں، دھمکیوں، ہراساں کیے جانے، من مانی گرفتاریوں، قتل اور ناروا سلوک کی زد میں آتے رہتے ہیں۔

رپورٹ میں افغانستان میں پرامن احتجاج پر حکومت کی پابندیوں اور خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم اور روزگار تک رسائی کے فقدان کا ذکر بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان اور مغربی ممالک کے درمیان تین روزہ مذاکرات کا آغاز

انتونیو گوتریس نے رپورٹ میں کہا کہ افغانستان کا پورا سماجی اور معاشی نظام گراوٹ کا شکار ہے۔

افغانستان مسلسل ایک انسانی المیے کی لپیٹ میں ہے جو کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے مزید بگڑ گیا ہے کیونکہ مغربی ممالک کی جانب سے افغانستان کی بین الاقوامی امداد کا سلسلہ روک دیا گیا ہے اور بیرون ملک رکھے ہوئے اربوں ڈالر مالیت کے اثاثے بھی منجمد کیے جاچکے ہیں۔

افغانستان میں پچھلی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے تحت ملک تقریباً مکمل طور پر غیر ملکی امداد پر منحصر تھا لیکن اب ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں اور زیادہ تر سرکاری ملازمین کو مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی۔

ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے، زیادہ تر ممالک اس وقت یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بدنام افغان طالبان اس بار کس طرح آزادی کو محدود کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی امداد کیلئے پاکستان کا عالمی برادری پر زور

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ بہت سے علاقوں میں غربت میں اضافے اور خشک سالی سے تباہ کن زراعت کے سبب ملک کی 3 کروڑ 80 لاکھ آبادی میں سے نصف کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گزشتہ ماہ متفقہ طور پر ایک امریکی قرارداد منظور کی تھی جس میں بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کیے بغیر افغان شہریوں تک کچھ امداد پہنچانے کی اجازت دی گئی تھی۔

تاہم مغربی ممالک کے انسانی حقوق کے گروپوں اور امدادی تنظیموں کی جانب سے افغانستان میں سخت سرد موسم کے پیش نظر مزید فنڈز بھیجنے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں