راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کیلئے کافی زمین موجود ہے، روڈا

01 فروری 2022
روڈا کے ترجمان نے کہا کہ صرف 300 ایکڑ زمین خریدنے کےدعوےعدالت اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں — فائل فوٹو: ای پراپرٹیز ویب سائٹ
روڈا کے ترجمان نے کہا کہ صرف 300 ایکڑ زمین خریدنے کےدعوےعدالت اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں — فائل فوٹو: ای پراپرٹیز ویب سائٹ

راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (روڈا) کا کہنا ہے کہ راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے پہلے مرحلے پر دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے اس کے پاس سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی اجازت کے تحت کافی زمین موجود ہے۔

تاہم کسانوں اور متاثرہ افراد کے وکیل نے کہا ہے کہ اب تک [اس منصوبے کے لیے] صرف 300 ایکڑ اراضی حاصل کی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز سپریم کورٹ نے راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کو ختم کرنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے حکومت کو زمین کے صرف اس حصے پر تعمیراتی کام دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی تھی جہاں مالکان کو معاوضہ دیا جاچکا ہے۔

25 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 2020 کے روڈا ایکٹ کی متعدد دفعات کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے سے حکومت کے منصوبے کو شدید دھچکا پہنچا۔

یہ بھی پڑھیں: راوی ریور فرنٹ منصوبے کو حاصل ’قانونی استثنیٰ‘ پر سوالات اٹھ گئے

روڈا کے ترجمان شیر افضل بٹ کا کہنا تھا کہ حکومت نے نقد ادائیگی کے ذریعے 5 ہزار ایکڑ زمین خریدی ہے، تقریباً 25 سے 30 ہزار ایکڑ کے مالکان نے اپنی زمین اتھارٹی کو فروخت کرنے کے لیے فارم حاصل کیے۔

انہوں نے کہا کہ 15 سے 16 ہزار ایکڑ سرکاری اراضی پہلے ہی اتھارٹی کو دی جاچکی ہے اور انہیں جلد ہی اس پر ’سیفائر بے‘ کا پہلا مرحلہ شروع کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں 300 ایکڑ پر رہائشی منصوبے ’چہار باغ‘ میں 10 مرلہ سے ایک کنال تک کے ولاز تعمیر کرنے ہیں اور اس پر 12، 16 اور 45 منزلہ رہائشی فلیٹس بھی تعمیر کریں گے۔

ترجمان نے کہا کہ بوٹی پورہ علاقے میں رہائشی فلیٹ اور ولاز تعمیر کیے جائیں گے اور یہ علاقہ رنگ روڈ سے جڑے گا۔

مزید پڑھیں: ریور راوی منصوبہ: لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل، کام جزوی طور پر جاری رکھنے کی اجازت

انہوں نے درخواست گزاروں جانب سے صرف 300 ایکڑ زمین خریدنے کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ دعوے صرف عدالت اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل فہد ملک نے بتایا کہ روڈا حکام نے لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی کارروائی میں خریدی گئی زمین سے متعلق کوئی دستاویزی ثبوت کبھی پیش نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ حکام نے لوگوں سے 95 فیصد اراضی حاصل کرنے کا صرف دعویٰ کیا تھا اور معاوضہ ادا کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا، عدالت میں پیش کیے گئے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف ایک یا دو ایکڑ والے چھوٹے کسانوں نے مستقبل میں مسائل سے بچنے کے لیے اپنی زمین فروخت کی ہے جبکہ 100 ایکڑ سے زیادہ کے مالکان نے اپنی زمین فروخت نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے ریور راوی منصوبہ غیر قانونی قرار دے دیا

فہد ملک نے مزید بتایا کہ ممکن ہے کہ اس منصوبے میں سرکاری اراضی بھی شامل ہو اور ان کے پاس یہ اطلاع تھی کہ محکمہ جنگلات اور محکمہ آبپاشی کی زمین بھی لے لی گئی ہے، لیکن انہوں نے عدالت میں جمع کرائے گئے متعلقہ محکموں کی کوئی دستاویز نہیں دیکھی۔

انہوں نے کہا کہ روڈا نے صرف کچھ کسانوں کو معاوضہ دیا تھا اور صرف 300 ایکڑ اراضی حاصل کی تھی اور انہیں صرف اسی پر کام شروع کرنے کی اجازت دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت، اسلام آباد شہر جیسا منصوبہ بنانا چاہتی تھی لیکن اس منصوبے کے لیے زمین حاصل کرنے کے مطلوبہ معیار پر عمل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ انہوں نے کسانوں سے 500 ایکڑ اراضی حاصل کی ہے جنہیں بعد میں معاوضے کی مد میں جدید پلاٹ دیے جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں