صرف شہزاد اکبر کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے، زلفی بخاری

08 فروری 2022
زلفی بخاری نے لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے خطاب کیا—تصویر: ڈان اخبار
زلفی بخاری نے لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے خطاب کیا—تصویر: ڈان اخبار

وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی، ذوالفقار عباس بخاری المعروف زلفی بخاری نے ایک اور معاون کی برطرفی پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جو برسوں سے شہزاد اکبر کے 'بہترین کام' کی تعریفیں کررہے تھے انہیں بھی بے نقاب کر کے برطرف کیا جائے، صرف سابق مشیر احتساب پر سارا الزام ڈالنا بہت غلط ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لندن کے رائل نواب ریسٹورنٹ میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے زلفی بخاری کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ نئے لوگ آئے ہیں اس لیے وقت لگے گا لیکن یہ انتہائی غلط ہے کہ صرف شہزاد اکبر پر تمام تر الزام دھر دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر ساڑھے 3 سال سے وہاں تھے لیکن وہاں کچھ اور لوگ بھی ہیں جو وزیراعظم کو رپورٹ پیش کرتے تھے کہ شہزاد اکبر بہت اچھا کام کر رہے ہیں، ایسے لوگوں کو بھی بے نقاب کر کے برطرف کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:رنگ روڈ اسکینڈل: وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری مستعفی

تقریب میں برطانیہ میں مقیم پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں نے شرکت کی، تقریب میں زلفی بخاری کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور یورپ میں تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے وزیراعظم کے ترجمان صاحبزادہ جہانگیر نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع برطانوی قانون ساز ناز شاہ بھی موجود تھیں، تقریب میں شرکت پر زلفی بخاری نے بعد میں اپنے ٹوئٹر پیغام میں ناز شاہ کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔

تاہم زلفی بخاری نے حکومت میں شامل کارکردگی نہ دکھانے والے افراد کے خلاف کارروائی کرنے پر وزیر اعظم کی تعریف کی۔

مشیر احتساب کے استعفیٰ کے پیچھے وزیر اعظم کی جانب سے حوالہ دیے گئے متعدد عوامل کو دہراتے ہوئے ذلفی بخاری کا کہنا تھا کہ جہاں تک مشیر شہزاد اکبر کا تعلق ہے، اگر انہوں نے اس طرح کی کارکردگی نہیں دکھائی جیسی عمران خان کہہ رہے تھے تو اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، یہ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اچھی ٹیم نہ ہو، وہ سسٹم کو نہ سمجھ سکیں ہوں، وہ کوئی بہت بہترین وکیل نہیں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ توقع کر رہے تھے کہ بیرون ملک سے پیسہ واپس لایا جائے گا، اگر ایسا نہ ہوا تو بھی انہیں امید تھی کہ ہم نواز شریف کو وطن واپس آنے پر مجبور کر دیں گے، شاید یہ ہی معاملات تھے جن سے شہزاد اکبر صحیح طریقے سے نمٹ نہیں پائے۔

مزید پڑھیں:زلفی بخاری وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی مقرر

عدالتی نظام میں اصلاحات کرنے میں اپنی پارٹی کی ناکامی کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم جان گئے تھے کہ یہ کام نہیں کیا جارہا لیکن اس بات پر وزیر اعظم کو سراہا جانا چاہیے کہ جب وہ کسی چیز کو ناکام ہوتے دیکھتے ہیں، تو وہ چاہے وہ شہزاد اکبر جیسا قریبی ساتھی ہو یا کوئی اور ایکشن لیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب عدالتی عمل کی بات کی جائے تو احتساب ایک چیلنجنگ موضوع ہے، اگر کوئی کمزوری ہے تو ہمیں اسے تسلیم کرنا چاہیے کہ ابتدائی سالوں میں ہم نے عدالتی نظام میں اصلاحات نہیں کیں، جب یہ اصلاحات منظور ہوں گیں تو عدالتیں فیصلے سنائے گیں۔

گزشتہ ماہ ان خبروں کے درمیان کہ حکومت پر اپنے احتساب کے بیانات کے مطابق نتائج دینے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے شہزاد اکبر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے استعفیٰ کا اعلان کردیا تھا۔ شہزاد اکبر کو اگست 2018 میں احتساب و داخلہ کے لیے وزیر اعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا اور وہ لوٹی ہوئی رقم بیرون ملک سے واپس لانے کے لیے ساتھ تشکیل دیے گئے ادارے اثاثہ برآمدگی یونٹ کے سربراہ بھی تھے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے استعفیٰ دے دیا

برطانیہ کی پولیس کی جانب سے پاکستانی مخالفین کو بیرون ملک نشانہ بنائے جانے کی وارننگ کے بارے میں پوچھے جانے پر زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح کی خبروں سے آگاہ نہیں ہیں۔

انہوں نے سرکاری اہلکاروں کی دوہری شہریت سے متعلق معاملے پر بھی بات کی، ان کا کہنا تھا کہ جب بیوروکریٹس اور سیاست دان اپنی بڑی عمر میں کسی دوسرے ملک کا اقامہ اور شہریت لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ باہر نکلنے کے موقع کی تلاش میں ہیں، لیکن میری رائے میں، اگر آپ کے پاس شہریت 30 سال سے زیادہ عرصے سے ہے، تو آپ اس کے لیے لڑ سکتے ہیں،

زلفی بخاری کا مزید کہنا کہ ان کی برطانوی شہریت برطانیہ میں پیدا ہونے کی وجہ سے ہے اور آئندہ 6 ماہ میں وہ اپنی شہریت سےدست برداری کا عمل شروع کر دیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں