جے یو آئی کی 'عورت مارچ' کی مخالفت، طاقت سے روکنے کی دھمکی

19 فروری 2022
عورت مارچ ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنا ہے
— فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
عورت مارچ ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنا ہے — فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

جعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ایف) اسلام آباد ڈویژن کے صدر نے ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ملک بھر میں منائے جانے والے عورت مارچ کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ وہ عورت مارچ کو روکنے کے لیے لاٹھی کا استعمال کریں گے۔

جے یو آئی ایف اسلام آباد ونگ کے سربراہ عبدالمجید ہزاروی نے دارالحکومت کے ڈی چوک میں بھارت میں حجاب پر پابندی کے حوالے سے منعقدہ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر 8 مارچ کو اسلام آباد میں بے حیائی کی کوئی کوشش کی گئی تو ہم اس کی مذمت کریں گے۔

عبدالمجید ہزاروی نے کہا کہ عورت مارچ کے دوران 'خواتین کے حقوق کے نام پر بےحیائی پھیلائی جاتی ہے' اور حکومت کو خبردار کیا کہ اگر مارچ کی اجازت دی گئی تو 'ہم اسے روکنے کے لیے لاٹھی کا استعمال کریں گے'۔

یہ بھی پڑھیں:ملک میں'عورت مارچ' کی اجازت نہ دی جائے، وزیر مذہبی امور کا وزیراعظم کو خط

خیال رہے کہ سال 2018 میں پہلی مرتبہ کراچی میں عورت مارچ منعقد ہوا تھا، جو اب ہر سال 8 مارچ کو ملک بھر کے کئی شہروں میں خواتین کا عالمی دن منانے اور پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل کو نمایاں کرنے کے لیے منعقد کیا جاتا ہے۔

عورت مارچ کو پہلے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے، خاص طور پر مارچ کے دوران شرکا کی جانب سے اٹھائے گئے نعروں اور پلے کارڈز کے باعث جبکہ 2019 میں دارالحکومت میں جامعہ حفصہ کے طلبا نے مارچ کے شرکا پر پتھراؤ بھی کیا تھا۔

گزشتہ سال اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹس میں مارچ پر پابندی عائد کرنے کے لیے درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن عدالتوں نے یہ کہتے ہوئے درخواستیں خارج کردی تھیں کہ پرامن طریقے سے جمع ہونے کے حق کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔

جے یو آئی-ایف کی جانب سے اس ایونٹ کے خلاف تازہ ترین بیان وزیر مذہبی امور کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو لکھے خط کے اگلے ہی روز سامنے آیا، خط میں کہا گیا تھا کہ خواتین کے عالمی دن پر اسلام مخالف نعرے نہیں لگائے جانے چاہئیں۔

مزید پڑھیں:پشاور: عدالت کا عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف اندراجِ مقدمہ کا حکم

وزیر مذہبی امور نے خط میں دنیا بھر کی مسلم خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے 8 مارچ کو حجاب کا عالمی دن منانے کی تجویز بھی دی تھی۔

خط لکھے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر خاص طور پر پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کی جانب سے تنقید کے بعد نور الحق قادری نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ سیاسی رہنما ان کے خط کو پڑھے بغیر منفی پروپیگنڈا پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکومت لوگوں کے نظریات کی نگران نہیں

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومتوں کو لوگوں کے خیالات اور لباس سے متعلق مداخلت کا حق نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ پابندی صرف ان مقامات پر لگائی جائے جہاں تشدد کو فروغ دیا جا رہا ہو۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کیا جہاں ان سے نور الحق قادری کی جانب سے وزیراعظم کو لکھے گئے خط سے متعلق سوال پوچھا گیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ میں نے نور الحق قادری کا خط نہیں دیکھا، تاہم کسی بھی ایسی چیز پر پابندی نہیں لگنی چاہیے جس میں تشدد شامل نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں:عالمی یومِ خواتین کے موقع پر مختلف شہروں میں عورت مارچ کا انعقاد

ان کا کہنا تھا کہ آپ انتہا پسندی کے بارے میں بات کر سکتے ہیں لیکن اگر تشدد نہیں ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ نفرت انگیز تقریر میں شامل نہیں ہو سکتے، آپ لوگوں کو تشدد پر اکسا نہیں سکتے اور آپ تشدد نہیں کر سکتے'۔

فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو اس معاملے میں فریق نہیں بننا چاہیے کہ کوئی کیا پہنتا ہے اور کیا نہیں پہنتا، یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام نہیں ہے، یہ معاشرے کا فیصلہ کہ وہ کیا پہنتا اور کیا سوچتا ہے، اور کیا مناسب ہے اور کیا غیر مناسب ہے اس سے متعلق معاشرہ اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومتیں یہ فیصلے کرنا شروع کر دیتی ہیں، تو اس سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے جسے ہم بھارت میں دیکھ رہے ہیں، اس کے ساتھ انہوں نے یورپ میں اسلامو فوبیا کے عروج کی مثال بھی دی۔

انہوں نے کہا کہ ہر شخص کو اپنے خیالات کا حق ہے، معاشرے کو صرف تشدد کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔

عورت مارچ کے دوران لگائے گئے نعروں اور بینرز پر اعتراضات سے متعلق سوال کے جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ان میں سے بہت سے نعرے اور بینرز فوٹو شاپ کیے گئے تھے اور جب بعد میں ان کی چھان بین کی گئی تو پتا چلا کہ وہ فوٹو شاپ کرائے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:عورت مارچ منتظمین کا ’ایڈٹ شدہ‘ ویڈیو پھیلانے والوں سے معافی کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ واضح لکیریں ہیں جنہیں پاکستان میں عبور نہیں کیا جا سکتا لیکن کوئی خاص نقطہ نظر رکھنے والے شخص پر پابندی کا مطالبہ سمجھ سے بالا تر ہے۔

'حجاب ہمارا فخر، ہمارا اعزاز'

جے یو آئی-ایف کی خواتین ونگ کی سربراہ ایم این اے شاہدہ اختر علی نے بھی بھارت میں حجاب کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بات کی۔

یہ مسئلہ گزشتہ ماہ اس وقت خبروں میں نمایاں ہوا جب بھارت کی ریاست کرناٹک میں ایک سرکاری اسکول نے حجاب پہننے والی طالبات کو کلاس روم میں داخل ہونے سے روک دیا، جس سے اسکول کے گیٹ کے باہر احتجاج شروع ہوا، ریاست کے مزید اسکولوں نے بھی اسی طرح کی پابندیوں کے بعد ریاست کی اعلیٰ عدالت کو مداخلت کرنے پر مجبور کیا۔

بعدازاں معاملہ اس وقت مزید بڑھا جب ایک باحجاب طالبہ مسکان خان کو کرناٹک میں ہندوتوا کے حامیوں کے ایک ہجوم کی جانب سے غیر اخلاقی سلوک کا نشانہ بنائے جانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی۔

یہ بھی پڑھیں:عورت مارچ میں مبینہ متنازع نعروں کی تفتیش کا آغاز کردیا، وزارت مذہبی امور

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کی مذمت کرتے ہوئے شاہدہ اختر علی کا کہنا تھا کہ ہم مسکان خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، انہوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا کہ بھارت میں حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جے یو آئی (ف) کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ آئین کی خلاف ورزی اور اقلیتوں کے حقوق پامال کے باعث بھارت بے نقاب ہوگیا ہے۔

مولانا عبدالغفور حیدری نے اس معاملے پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارت میں انتہا پسند گروپوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مولانا عبدالغفور حیدری یہ بھی مطالبہ کیا کہ او آئی سی اپنا کردار ادا کرے اور بھارت میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں