پابندیوں کے شکار روس کی ایران کے جوہری معاہدے میں رکاوٹ بننے کی دھمکی

اپ ڈیٹ 06 مارچ 2022
سرگئی لاوروف نے کہا کہ ہمارے امریکی ساتھی ہمیں کم از کم سیکریٹری آف اسٹیٹ کی سطح پر تحریری ضمانتیں دیں—فوٹو: اے پی
سرگئی لاوروف نے کہا کہ ہمارے امریکی ساتھی ہمیں کم از کم سیکریٹری آف اسٹیٹ کی سطح پر تحریری ضمانتیں دیں—فوٹو: اے پی

یوکرین پر حملے کے بعد روس پر لگائی گئی سخت پابندیوں کے پیش نظر تجارتی اور کاروباری مفادات کے تحفظ کی کوشش میں روس نے ایران کے مجوزہ جوہری معاہدے کی حمایت کرنے سے پہلے امریکا سے ضمانتیں مانگ لیں۔

ڈان اخبار میں خبررساں ایجنسیوں کی شائع رپورٹ کے مطابق روس کی جانب سے ضمانتوں سے متعلق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے بیان نے تہران کے 2015 کے جوہری معاہدے کے جلد از جلد بحالی کے امکانات کم کردیے ہیں۔

روس کے اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ایرانی عہدیدار نے کہا کہ روسیوں نے یہ مطالبہ 2 روز پہلے ویانا مذاکرات میں رکھا، یہ واضح ہے کہ ویانا مذاکرات میں اپنی پوزیشن تبدیل کر کے روس دیگر معاملات میں اپنے مفادات کو محفوظ بنانا چاہتا ہے، یہ اقدام ویانا جوہری مذاکرات کے لیے معاون نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کے قریب پہنچ گئے ہیں، برطانوی ایلچی

دریں اثنا ایران اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے تہران میں بات چیت کے بعد کہا کہ انہوں نے معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں کے لیے اہم مسائل کو حل کرنے کی حکمت عملی پر اتفاق کیا۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرگئی لاروف نے کہا کہ جوہری مذاکرات میں بیشتر معاملات کا احاطہ کرلیا گیا ہے اور ہمارا نقطہ نظر ہے کہ اگر ایران راضی ہوتا ہے تو اس دستاویز کو قبولیت کے مرحلے میں داخل کیا جاسکتا ہے۔

البتہ انہوں نے مغربی ممالک کی جانب سے روس پر جارحانہ پابندیوں کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ ماسکو کو پہلے امریکا سے ضمانتیں مانگنی ہوں گی، جس کے لیے واضح جواب کی ضرورت ہے کہ نئی پابندیاں جوہری معاہدے کے تحت اس کے حقوق کو متاثر نہیں کریں گے۔

مزید پڑھیں: ایران جوہری معاہدے کو مزید التوا میں نہیں رکھا جاسکتا، جرمنی

انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ہم نے درخواست کی کہ ہمارے امریکی ساتھی ہمیں کم از کم سیکریٹری آف اسٹیٹ کی سطح پر تحریری ضمانتیں دیں کہ امریکا کی جانب سے شروع کیا گیا حالیہ پابندیوں کا عمل کسی بھی طرح سے ایران کے ساتھ ہماری آزاد تجارت، اقتصادی حقوق، سرمایہ کاری اور فوجی تکنیکی تعاون کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

روس کی جانب سے جوہری معاہدے جوہری معاہدے کی حمایت کرنے سے پہلے امریکا سے ضمانتیں طلب کرنے کا بیان، ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان ایک معاہدے کے بارے میں اعلان سے کچھ دیر بعد ہی سامنے آیا جس نے ممکنہ طور پر اس امید کو ختم کر دیا کہ یہ معاہدہ جلد ہی مکمل ہو سکتا ہے۔

روس کے مطالبے سے تہران اور روس سمیت عالمی طاقتوں کے درمیان 11 ماہ کے مذاکرات کو نقصان پہنچنے کے امکان سے متعلق سوال پر انٹرنیشنل کرائسز گروپ میں ایران کے پروجیکٹ ڈائریکٹر علی واعظ نے کہا ’ابھی تک نہیں، لیکن ان دونوں بحرانوں کو زیادہ دیر تک الگ کرنا ناممکن ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: ایران کے جوہری معاہدے کا مسودہ سامنے آگیا

علی واعظ نے کہا کہ امریکا، روس کو اضافی فیزائل مٹیریل کی منتقلی سے متعلق کام کے لیے چھوٹ دے سکتا ہے لیکن یہ اس بات کی علامت ہے کہ دونوں معاملات کا ملاپ شروع ہو گیا ہے۔

آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی اور ایران کے پاس متعدد اہم معاملات تھے جن کو حل کرنے کی ہمیں ضرورت تھی لیکن انہوں نے اب ان پر قابو پانے کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایران کے جوہری توانائی کی تنظیم کے صدر محمد اسلامی نے کہا کہ دونوں فریق اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 22 مئی تک آئی اے ای آئی اور ایرانی تنظیم کے درمیان کچھ ضروری دستاویزات کا تبادلہ ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ایران: جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے مغربی ممالک سے ضمانت لی جائے، اراکین پارلیمنٹ

تیل کی دولت سے مالا مال ایران نے رواں ہفتے کہا کہ اس سے قبل کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد پابندیوں کا نفاذ شروع ہو جائے، وہ اپنی خام برآمدات کو نومبر 2018 سے پہلے کی سطح تک بڑھانے کے لیے تیار ہے۔

آئندہ چند روز کو بڑے پیمانے پر سمجھوتے کی بحالی پر بات چیت کے لیے ایک فیصلہ کن نقطے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جسے باضابطہ طور پر مشترکہ جامع پلان آف ایکشن یا جے سی پی او اے کہا جاتا ہے۔

برطانوی وفد کی سربراہ اسٹیفنی القاق نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے مذاکرات کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم قریب ہیں، وزرا کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے ای-3 مذاکرات کار ویانا سے روانہ ہو رہے ہیں اور جلد واپس آئیں گے۔

معاہدے کی بحالی کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت میں جاری مذاکرات میں برطانیہ، چین، فرانس اور جرمنی کے ساتھ روس فریق ہےہے، جس میں امریکا بالواسطہ شامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں