’جنوبی پنجاب کے قبائلی علاقوں میں کاروکاری، ونی کی روایات آج بھی عام ہیں‘

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2022
ہیومن رائٹ کمیشن نے بتایا کہ جبری مشقت کے حوالے سے بنائی گئیں نگراں کمیٹیاں غیر فعال ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
ہیومن رائٹ کمیشن نے بتایا کہ جبری مشقت کے حوالے سے بنائی گئیں نگراں کمیٹیاں غیر فعال ہیں—فوٹو: ڈان نیوز

انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی جنوبی پنجاب میں تحقیق کرنے والی ایک ٹیم نے بتایا ہے کہ قبائلی علاقوں میں خواتین کو اب بھی کاروکاری اور ونی کیا جاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں کوئی تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایچ آر سی پی نے جنوبی پنجاب میں ایک اعلیٰ سطح کا حقائق تلاشنے کا مشن مکمل کیا، جس میں چیئرپرسن حنا جیلانی، نائب چیئرمین پنجاب راجا اشرف، کونسل رکن نذیر احمد اور ریجنل کوآرڈینیٹر فیصل تنگوانی شامل تھے۔

ٹیم نے نتیجہ اخذ کیا کہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے قبائلی علاقوں میں اب بھی خواتین کو ضرررساں روایتوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جہاں کاروکاری اور ونی اب بھی معاشرے کے تانے بانے اس حد تک پیوست ہیں کہ اس عمل کو روکنے کے لیے سرحدی پولیس بھی متاثرین کو تحفظ فراہم نہیں کرتی۔

مزید پڑھیں: جرگے کا دو بچیوں کو 'ونی' کرنے کا حکم

علاوہ ازیں بہت سی خواتین کو ان کے خاندان کے مرد شہریت کی دستاویز کے حق سے محروم رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی کوئی سیاسی آواز نہیں ہوتی۔

صوبے میں مذہبی اقلیتوں کی صورتحال خاص کر تشویشناک ہے، زمینوں پر قبضہ کرنے کی غرض سے ہندو اور عیسائی خاندانوں کو ڈرانے کے لیے توہین مذہب کے قانون کا استعمال عام ہے جبکہ مذہب کی جبری تبدیلی بھی معمول ہے۔

ٹیم کی توجہ میں لائے گئے ایک کیس میں بتایا گیا کہ ایک مکان مالک نے زبردستی ہندو کرائے دار کی بیٹی سے شادی کرلی تھی۔

ایچ آر سی پی نے یہ جان کر تشویش کا اظہار کیا کہ ضلعی سطح پر جبری مشقت کا استعمال رپورٹ کرنے اور نگرانی کے لیے بنائی گئی ویجیلنس کمیٹیاں غیر فعال ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی شرعی عدالت نے ’سوارہ‘ کو غیر اسلامی قرار دے دیا

کمیشن نے کہا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے جبری مشقت کے خاتمے کے قانون، پنجاب بانڈڈ لیبر سسٹم (ابولیشن) ایکٹ 1992 میں ترمیم کر کے پیشگی نظام کی بحالی قابل افسوس ہے جسے فوری واپس لیا جانا چاہیے۔

ساتھ ہی یہ بھی تشویش کی بات ہے کہ مزدور نے ایچ آر سی پی کو بتایا کہ انہیں روزانہ 800 روپے دیہاڑی دی جاری ہے جبکہ کم از کم روزانہ اجرت ایک ہزار 300 روپے ہے۔

علاوہ ازیں پاور لوم انڈسٹری کے ملازمین نے الزام عائد کیا کہ وہ 16 گھنٹے کام کرتے ہیں جبکہ حادثاتی موت یا زخمی ہونے کی صورت میں ان کے لیے معاوضہ یا سماجی سیکیورٹی نظام بھی نہیں ہے۔

چولستان کے ایک رہائشی نے سنگین الزام لگایا کہ ان کی زمین الاٹمنٹ کی درخواست صدیوں سے التوا کا شکار ہے جبکہ اطلاعات ہیں کہ فوج اس زمین کے بڑے رقبے پر قبضہ کرچکی ہے۔

مزید پڑھیں: ونی کیلئے اغوا کی گئی لڑکی کو بازیاب کروا کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم

اس کے علاوہ یہاں پانی کی شدید قلت اور مکینوں کے لیے اسکولوں کی کمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹیم نے یہ بھی دیکھا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو کام دوران سیکیورٹی نہ ہونے کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اکثریت اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں اور ان کے لیے معاوضہ اور فوائد نہ ہونے کے برابر ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں