اپوزیشن کو حکومتی اتحاد ’چند روز‘ میں ٹوٹ جانے کی امید

اپ ڈیٹ 13 مارچ 2022
وزیراعظم عمران خان کی مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی سے ملاقات کا امکان ہے—تصویر: عمران خان فیس بک
وزیراعظم عمران خان کی مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی سے ملاقات کا امکان ہے—تصویر: عمران خان فیس بک

اپوزیشن جماعتوں کے پی ٹی آئی حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات ’حتمی مرحلے‘ میں داخل ہو چکے ہیں، مشترکہ اپوزیشن کو امید ہے کہ حکمران اتحاد ’گھنٹوں نہیں تو چند دنوں میں‘ ٹوٹ جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل مونس الٰہی کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے سے بھی مخلوط حکومت میں دراڑیں بھی نظر آئیں۔

شیخ رشید احمد نے مسلم لیگ (ق) الزام عائد کیا کہ وہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اقدام کے خلاف ساتھ دینے کے لیے حکومت کو بلیک میل کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:تحریک عدم اعتماد: وزرا کے درمیان جملوں کا تبادلہ، حکومتی اتحاد میں دراڑ نمایاں

اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کا حصہ بننے والے مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ حکومتی اتحادیوں بالخصوص مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم پاکستان اور بی اے پی کے ساتھ ہماری بات چیت آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے یہ اگر گھنٹوں نہیں تو چند روز کی بات ہے کہ وہ اتحاد چھوڑ کر ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اتحادیوں نے عمران خان سے علیحدگی اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا ہے لیکن دونوں فریقین کے درمیان ’کچھ معاملات‘ پر کام کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اتحادیوں کا خیال ہے کہ وہ اپوزیشن سے شرائط منوانے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہیں، کیونکہ اپوزیشن وزیراعظم عمران خان کو نکالنے کے لیے صرف پی ٹی آئی کے منحرف اراکین قومی اسمبلی پر انحصار کرنے کے لیے پر اعتماد نہیں ہے‘۔

مزید پڑھیں:مسلم لیگ (ق) قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانےکی خواہاں

حکومت کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد تحریک عدم اعتماد کے دوران پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے ووٹوں کا شمار نہیں کریں گے، اتحادی اپوزیشن کے لیے مزید اہم ہوگئے ہیں۔

حزب اختلاف کے ایک اور اندرونی ذرائع نے کہا کہ اتحادی مشترکہ اپوزیشن کے ساتھ معاملات میں کچھ ’قابل اعتماد ضامن‘ رکھنے کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں طاقتوں کے ضامن سامنے آتے اور اس طرح کے معاہدوں پر مہر لگا دیتے تھے لیکن اب اتحادی، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے حوالے سے ہوشیار ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسے ضامنوں کے بغیر اعتماد کی کمی ہے۔

وزیراعظم کی پرویز الٰہی سے ملاقات کا امکان

دوسری جانب وزیراعظم خان اتحادیوں کو حکومت کے ساتھ وفادار رکھنے کی آخری کوشش کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ان کی (آج) اتوار کو مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کا امکان ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کے بعد اسپیکر، پی ٹی آئی کے صوبائی وزرائے اعلیٰ کی طرف جائیں گے، خورشید شاہ

مسلم لیگ (ق) وزیر اعظم سے پہلے ہی کہہ چکی ہے وہ تحریک عدم اعتمادکے سلسلے میں قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل عثمان بزدار کی جگہ وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے پرویز الٰہی کے نام کا اعلان کریں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ’اگر وزیراعظم اتوار کو پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لیے امیدوار کے طور پر پرویز الٰہی کے نام کا اعلان نہیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے اہم اتحادی سے محروم ہوجائیں گے‘۔

مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم پی دونوں نے مبینہ طور پر وزیر اعظم کو پیغام پہنچا دیا ہے کہ انہیں اپوزیشن کی جانب سے انہیں حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی صورت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور سندھ کے گورنر کی عہدوں کے علاوہ پولنگ کے بعد کے دیگر انتظامات کی پیش کش ہوئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں