سفارتی ذرائع سے پاکستان کے ساتھ تعلقات ہیں، امریکا

20 مارچ 2022
پریس سیکریٹری جین ساکی نے دو اشتعال انگیز سوالات کو نظر انداز کر دیا—فائل: فوٹو: رائٹرز
پریس سیکریٹری جین ساکی نے دو اشتعال انگیز سوالات کو نظر انداز کر دیا—فائل: فوٹو: رائٹرز

بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے یا تنزلی کا عہد کیے بغیر محتاط روابط جاری رکھنے کی خواہش کا اشارہ دیا ہے، وہ ملک جو کبھی قریبی اتحادی ہوا کرتا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اشارہ وائٹ ہاؤس میں جمعہ کی سہ پہر کی ایک نیوز بریفنگ میں سامنے آیا جب پریس سیکریٹری جین ساکی نے دو اشتعال انگیز سوالات کو نظر انداز کر دیا جنہیں وہ یا تو پاکستان کی موجودہ پالیسیوں پر تنقید کرنے یا اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی امریکی خواہش کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کر سکتی تھیں۔

ایک پاکستانی صحافی نے انہیں یاد دلایا کہ کئی ماہ قبل وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ’ٹیلیفون پر بات چیت کی درخواست‘ کی تھی جس کے بعد ہم نے اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان اب بھی امریکا کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے، ترجمان محکمہ خارجہ

صحافی نے سوال کیا کہ کیا پاکستانی قیادت سے رابطہ نہ کرنے کی کوئی خاص وجہ ہے؟

جس پر وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے جواب دیا کہ میرے پاس کسی طے شدہ کال یا مصروفیت کے بارے میں کوئی اپ ڈیٹ نہیں، ظاہر ہے کہ ہم اپنی قومی سلامتی ٹیم اور محکمہ خارجہ کے ذریعے پاکستان اور متعدد رہنماؤں کے ساتھ کئی سطحوں پر بات چیت کرتے ہیں لیکن صدر کے ساتھ کال یا مصروفیت کے لحاظ سے میرے پاس اس حوالے سے پیش گوئی کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

صحافی نے پھر محترمہ جین ساکی کو یاد دلایا کہ وزیر اعظم خان نے حال ہی میں ایک عوامی اجتماع میں کہا تھا کہ ’وہ دیگر (پاکستانی) سیاستدانوں کی طرح امریکا کے غلام نہیں بنیں گے، کیا آپ اس پر تبصرہ کرنا چاہیں گے؟‘۔

مزید پڑھیں:امریکا نے پاکستان، افغانستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کی فہرست میں شامل کرلیا

جس پر امریکی عہدیدار نے جواب دیا کہ ہمارے پاکستان کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں اور یہ ایک ایسا رشتہ ہے جسے ہم سفارتی ذرائع سے جاری رکھیں گے، لہذا میرے پاس اس پر مزید کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان سرد جنگ کے دوران امریکا کا قریبی اتحادی تھا اور سوویت یونین کے ٹوٹنے تک ایسا ہی رہا، پاکستان نے افغانستان میں سوویت مخالف جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی امریکا کا ساتھ دیا۔

دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی اس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں پائے گئے اور اوباما انتظامیہ نے اسلام آباد کو بتائے بغیر اسے باہر نکال لیا۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا کے پاس پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، ٹام ویسٹ

جولائی 2019 میں وزیر اعظم خان نے واشنگٹن کا ایک ’آفیشل ورکنگ‘ دورہ کیا جہاں انہوں نے وائٹ ہاؤس میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی جس کے بعد ستمبر 2019 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران نیویارک میں صدر ٹرمپ سے ان کی ایک اور ملاقات ہوئی تھی۔

اس کے بعد سے دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان کوئی براہِ راست ملاقات نہیں ہوئی اور صدر بائیڈن نے ابھی تک پاکستانی وزیر اعظم کو کال بھی نہیں کی۔

تبصرے (0) بند ہیں