الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کیخلاف کارروائی سے روک دیا گیا

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت کی کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں بھی الیکشن کمیشن جرمانہ عائد یا نااہلی کا فیصلہ نہ کرے — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت کی کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں بھی الیکشن کمیشن جرمانہ عائد یا نااہلی کا فیصلہ نہ کرے — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف انتخابی مہم میں شرکت اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر حتمی کارروائی سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں بھی الیکشن کمیشن جرمانہ عائد یا نااہلی کا فیصلہ نہ کرے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر کی درخواست پر سماعت کی، جس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر جاری نوٹسز کو چیلنج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کے خلاف کارروائی سے روکنے کی استدعا مسترد

سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالتی معاونت کے لیے عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرڈیننس میں ترمیم کر کے آرڈر پاس کیا، الیکشن کمیشن آرڈیننس میں ترمیم کیسے کر سکتا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جب آرڈیننس جاری ہوا تو اس کے بعد الیکشن کمیشن نے مجھ سے مشاورت کی۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا آئینی اختیار کو عام قانون سازی سے ختم کیا جا سکتا ہے، اٹارنی جنرل صاحب، آپ نے اس سوال پر عدالت کی معاونت کرنی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم ایک پارٹی کا سربراہ ہوتا ہے، وہ اسٹار پرفارمر ہوتا ہے، وزیراعظم ایک پارٹی کا سربراہ ہوتے ہوئے نیوٹرل کیسے ہو سکتا ہے؟

خالد جاوید کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں اسٹار پرفارمر کو مہم سے کیسے نکالا جا سکتا ہے؟ صدر ریاست کا سربراہ ہے اسے پابند بنایا گیا ہے، وزیراعظم پارٹی کا سربراہ ہے لہٰذا آئین کی منشا کے تحت اسے پابند نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم، وفاقی وزیر نے الیکشن کمیشن کے نوٹسز عدالت میں چیلنج کردیے

انہوں نے مزید کہا کہ ایک پارٹی کا سربراہ وزیر اعظم ہے تو اسے مہم سے روک دیا جاتا ہے، اپوزیشن جماعت کا سربراہ انتخابی مہم چلا سکتا ہے تو اسے فائدہ مل جاتا ہے، وزیراعظم کو انتخابی مہم میں کچھ چیزوں سے روکا جا سکتا ہے جیسے الیکشن مہم میں کسی ترقیاتی اسکیم کا اعلان نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا کہ جن انتخابی جلسوں پر جاؤں گا خرچہ اپنی جیب سے یا پارٹی فنڈ سے ہوگا، ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں پیسے لیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کیا، ایک طرف وزیراعظم جلسے کے لیے نکلتے ہیں تو ادھر الیکشن کمیشن کا نوٹس آ جاتا ہے، الیکشن کمیشن وزیر اعظم کو 50 ہزار جرمانہ کر چکا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن اس کے بعد نااہل بھی کر سکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن جرمانے کے بعد نااہل بھی کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن سیاسی جماعت یا امیدوار کو نوٹس جاری کر سکتا ہے، وزیراعظم نہ تو سیاسی جماعت ہیں نہ ہی امیدوار ہیں، انہیں نوٹس کیسے جاری کیا جاتا ہے، وزیراعظم کو ہر روز دو تین نوٹس آرہے ہیں، الیکشن کمیشن کس طرح وزیراعظم کو نااہل قرار دے سکتا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کو نااہلی کا کوئی نوٹس جاری کیا گیا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم کو 2 تاریخ کے بعد نااہلی کا نوٹس جاری کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیراعظم کو ایک اور نوٹس

انہوں نے مزید بتایا کہ وزیراعظم کو جرمانہ کیا جاچکا کہ 50 ہزار روپے جمع کرائیں، وزیراعظم کو نوٹس آتا ہے کہ کل مینگورہ میں پیش ہو جائیں، یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر کیسے بلا سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ کیس کا فیصلہ ہونے تک عدالت حکم امتناع جاری کر دے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن آئندہ سماعت تک کسی کو نااہل نہ کرے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف نااہل نہیں، ان کو روزانہ نوٹسز جاری کرنے سے بھی روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہر روز وزیراعظم کو دو تین نوٹس جاری کر دیتا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے کابینہ ڈویژن کا نوٹی فکیشن پڑھا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا خرچہ وزیراعظم خود ادا کریں گے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے لکھا ہے کہ وزیراعظم نے سرکاری مشینری استعمال کی ہے، الیکشن کمیشن کی بات درست ہے کہ سرکاری خرچے پر مہم نہیں کی جا سکتی۔

اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ بلاول بھٹو کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے جملہ کہا کہ بہت شکریہ آپ کا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: عمر امین گنڈاپور کی نااہلی کا نوٹس معطل

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کی ویڈیوز موجود ہیں، الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کیا، وزیراعظم جلسے کے لیے جانے لگتے ہیں نوٹس آجاتا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نظر آتی ہے تو نوٹس جاری کرے۔

وکیل علی ظفر نے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کو جرمانہ کرنے سے روکا جائے جس پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت تک نوٹس سے آگے کوئی کارروائی نہ کرے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کنڈکٹ کے مطابق وزیراعظم انتخابی مہم نہیں چلا سکتا، کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، وزرا، وزرائے اعلیٰ بھی انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وزیراعظم اور وفاقی وزیر کو کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت نوٹس تو دیا ہی نہیں، الیکشن کمیشن کہتا ہے ضابطہ اخلاق پر نوٹس کیا لیکن نوٹس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شاید قانونی رائے اب لی ہے کہ ضابطہ اخلاق بھی کوئی چیز ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ انہوں نے آرڈیننس میں ترمیم کے تحت وزیراعظم کو نوٹس جاری کیا، اگر الیکشن کمیشن کی ترمیم قابل عمل ہی نہیں ہوتی تو اس کے تحت نوٹس کیسے ہو سکتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے نتائج کیا ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی نے پارٹی فنڈنگ سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کردیا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کارروائی سے روکتے ہوئے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن آئندہ سماعت تک کسی کو نااہل اور جرمانہ نہ کرے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹسز کے خلاف وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر کی حکم امتناع کی درخواست منظور کرتے ہوئے مزید سماعت 6 اپریل تک ملتوی کر دی۔

تبصرے (0) بند ہیں