تحریک عدم اعتماد: ہفتہ کے روز قومی اسمبلی میں کیا ہوگا؟

اپ ڈیٹ 08 اپريل 2022
سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے ہفتہ کے روز اجلاس ساڑھے 10 بجے سے قبل بلانے کی ہدایت کی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے ہفتہ کے روز اجلاس ساڑھے 10 بجے سے قبل بلانے کی ہدایت کی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے پابند ہیں کہ وہ ہفتہ کو ایوان زیریں کا اجلاس بلائیں اور یہ اجلاس 3 اپریل کے اجلاس کے لیے جاری ایجنڈے کے مطابق ساڑھے 10 بجے کے بعد نہ بلایا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے جاری حکم نامے کے پیرا 9 کے مطابق اسپیکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ سیشن کے لیے اسمبلی کا اجلاس طلب کریں اور ایسا فوری طور پر کریں اور ایسی صورت میں ہفتہ کی صبح ساڑھے 10 بجے کے بعد ایوان کی کارروائی 3 اپریل 2022 کے لیے جاری کردہ حکم کے مطابق کریں اور اسے آئین کے آرٹیکل 95 میں بیان اور اس کی ضرورت کے مطابق قومی اسمبلی رولز 2007 میں قواعد و ضوابط کے اصول 37 کے ساتھ پڑھا جائے۔

مزید پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار، قومی اسمبلی بحال

امکان ہے کہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ آج ہفتہ کو ہونے والے اجلاس کا آرڈر آف ڈے جاری کر دے گا۔

اجلاس اس وقت تک ملتوی نہیں کیا جائے گا جب تک کہ تحریک کو نمٹا نہیں دیا جاتا یا جب تک قرارداد پر ووٹنگ نہیں ہو جاتی۔

اپوزیشن نے 7 مارچ کو وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائی تھی جبکہ اسپیکر نے اسے 25 مارچ کو ایوان میں پیش کیا تھا، قانون کے تحت وہ اس بات کے پابند تھے کہ قرارداد پر تین اپریل تک ووٹنگ کرائی جائے، 3 اپریل کے دن کا آرڈر قرارداد پر ووٹنگ سمیت چھ نکات پر مشتمل تھا۔

3 اپریل کے قومی اسمبلی کے ایجنڈے کے آئٹم 4 میں لکھا ہے کہ ’28 مارچ 2022 کو قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف کی پیش کردہ درج ذیل قرارداد پر ووٹنگ:، ’اس قرارداد کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 95 کی شق (1) کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یہ ایوان قرار دیتا ہے کہ اسے وزیر اعظم جناب عمران خان پر عدم اعتماد ہے اور اس کے نتیجے میں وہ شق (4) کے تحت عہدہ چھوڑ دیں‘۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب 3 اپریل کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اجلاس ملتوی کیا تھا تو اپوزیشن نے اپنے طور پر اجلاس کرایا، مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ایاز صادق اسپیکر منتخب ہوئے تھے اور عدم اعتماد کی قرارداد 197 ووٹوں سے منظور کرائی گئی تھی جبکہ حکومتی بینچوں پر موجود اراکین کی تعداد 144 تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ: مشترکہ اپوزیشن کا کل یوم تشکر منانے کا اعلان

ماہرین کا اصرار ہے کہ اگرچہ اسپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے تاہم اس کے باوجود وہ ہفتے کو ایوان کی صدارت کر سکتے ہیں۔

انہوں نے آئین کے آرٹیکل 53 (4) کا حوالہ دیا جس میں لکھا ہے کہ اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو عہدے سے ہٹانے کی قرارداد پر غور کیا جارہا ہو تو وہ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت نہیں کریں گے۔

ان کی رائے میں قوانین صرف اسد قیصر کو ایسے اجلاس کی صدارت کرنے سے روکتے ہیں جہاں ان کے خلاف عدم اعتماد پر غور کیا جا رہا ہو اور وہ ہفتہ کی کارروائی کی صدارت کر سکیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں