پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی برقرار رکھنے سے قومی خزانے پر مزید 40 ارب روپے کا بوجھ

اپ ڈیٹ 01 مئ 2022
پیٹرلیم مصنوعات کی قیمتیں نہ بڑھانے کے فیصلے سے پی ڈی سی میں مزید 40 ارب روپے شامل ہوگئے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
پیٹرلیم مصنوعات کی قیمتیں نہ بڑھانے کے فیصلے سے پی ڈی سی میں مزید 40 ارب روپے شامل ہوگئے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

حکومت نے 15 مئی تک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے قومی خزانہ پر آئندہ 2 ہفتوں میں مزید 40 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومتی ذرائع نے کہا ہے کہ آئل کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے قیمت کے فرق کے دعووں (پی ڈی سیز) اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے تیل کی قیمتوں میں مئی کے اگلے 15 روز میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

گزشتہ روز ایک بیان میں وزارت خزانہ نے کہا کہ وزیر اعظم نے شہریوں پر بوجھ بڑھنے سے بچنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 5 روپے اضافہ کردیا

وزارت خزانہ نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے 15 روزہ جائزے میں وزیر اعظم نے اوگرا کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔

اس کے نتیجے میں پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 149 روپے 86 پیسے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 144 روپے 15 پیسے، مٹی کا تیل 125 روپے 56 پیسے اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 118 روپے 31 پیسے رہے گی۔

اس فیصلے کے سبب پی ڈی سی میں مزید 40 ارب روپے شامل ہو گئے ہیں جو حکومت کی جانب سے تیل کمپنیوں کو ادا کیے جائیں گے، ان دعووں کا بڑا حصہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو جائے گا جو کہ سرکاری ملکیت ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف حکام مئی میں پیٹرول، بجلی کی سبسڈی پر بات کریں گے، وزارت خزانہ

پیٹرولیم ڈویژن کے ذرائع نے بتایا کہ پی ڈی سی کی تخمینہ رقم اپریل کے لیے 76 ارب روپے اور مارچ کے لیے 31 ارب 30 کروڑ روپے تھی، انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے رواں ماہ کے دوران تیل کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہ کی تو مئی کے لیے سبسڈی کا کُل اثر تقریباً 90 ارب روپے ہوگا۔

پیٹرولیم ڈویژن کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ ایندھن کی سبسڈی کو برقرار رکھنے سے نہ صرف قومی خزانے پر بوجھ پڑے گا بلکہ آئل کمپنیوں کے مالی معاملات پر بھی اثر پڑے گا، خاص طور پر پی ایس او پر کیونکہ حکومت کی جانب سے پی ڈی سی کی ریلیز میں ہمیشہ تاخیر ہوتی ہے۔

عہدیداروں نے مزید کہا کہ مارچ سے پی ڈی سی کے مجموعی اثرات کا تخمینہ 2 کھرب روپے لگایا گیا تھا جبکہ حکومت نے اب تک آئل کمپنیوں، خاص طور پر قومی اور بین الاقوامی نجی فرمز کو قیمتوں میں فرق کے دعووں کے طور پر 71 ارب 30 کروڑ روپے جاری کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرول کی قیمت میں فوری طور پر اضافہ نہیں ہو رہا، مفتاح اسمٰعیل

دوسری جانب اگر حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کے موجودہ قیمتوں میں فرق کے دعووں کو ختم کر دیتی ہے تو ڈیزل کی قیمت 216.48 روپے فی لیٹر اور پیٹرول کی قیمت 180.17 روپے فی لیٹر ہو سکتی ہے۔

تاہم اس سے مجموعی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ ڈیزل بڑے پیمانے پر نقل و حمل اور زراعت کے شعبوں میں تجارتی ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے، یہاں تک کہ ملک بھر میں بجلی کی بندش کے سبب بڑے جنریٹر چلائے جاتے ہیں، لہٰذا ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کو ہوا دے گا۔

مہنگا ڈیزل گندم کی فصل کو بھی مہنگا کر دے گا کیونکہ ایندھن پر چلنے والے ٹریکٹر تھریشر چلاتے ہیں اور پیدا ہونے والی فصل کو فروخت کے لیے اپنی منزلوں تک پہنچاتے ہیں۔

اسی طرح پیٹرول کی بلند قیمتوں کا شہروں میں رہنے والوں پر زیادہ اثر پڑے گا، خاص طور پر ایسی صورتحال میں کہ جب اس کا متبادل یعنی سی این جی ملک میں دستیاب نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rizwan Ali Soomro May 01, 2022 10:07am
جھوٹے ہیں