مسجدِ نبویﷺ واقعے کے وقت راشد شفیق وہاں موجود نہیں تھے، شیخ رشید کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 05 مئ 2022
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ میں 15 تاریخ کو فیصل آباد جلسے میں شریک ہوکر گرفتاری دینا چاہتا تھا — فوٹو: ڈان نیوز
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ میں 15 تاریخ کو فیصل آباد جلسے میں شریک ہوکر گرفتاری دینا چاہتا تھا — فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی حکام کی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ جس وقت مسجد نبویﷺ کا واقعہ پیش آیا رکن قومی اسمبلی شیخ راشد شفیق وہاں موجود نہیں تھے۔

ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کردہ ویڈیو پیغام میں شیخ رشید نے کہا کہ شیخ راشد شفیق اس واقعے میں ملوث نہیں ہیں۔

انہوں نے سیاسی مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی بھی یہ بات ثابت کردے کہ مسجد نبوی ﷺ میں پیش آنے والے واقعے کے دوران راشد شفیق وہاں موجود تھے تو اس کا ذمہ دار میں ہوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی وزیر داخلہ میرے دوست ہیں لیکن میں نے ان سے اپنے بھتیجے کی حمایت کے لیے نہیں کہا۔

سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے شیخ راشد پر اس وقت مقدمہ درج کروایا جب انہیں تصدیق ہوگئی کہ وہ تفتیش میں کلیئر ثابت ہوکر واپسی کے لیے جہاز میں سوار ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: مسجد نبوی ﷺ واقعہ: شیخ رشید کے بھتیجے کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

اپنی گرفتاری کے حوالے سے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ میں 15 تاریخ کو فیصل آباد جلسے میں شریک ہوکر گرفتاری دینا چاہتا تھا لیکن عمران خان نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔

قبل ازیں ایک ٹوئٹر پیغام کے ذریعے سابق وزیر داخلہ نے 15 مئی کے جلسے میں شرکت کا اعلان کیا تھا۔

خیال رہے شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو 2 مئی کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

راشد شفیق کو بعد ازاں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے کے الزام میں ایک دن کے لیے نیو ایئرپورٹ پولیس کی تحویل میں بھیج دیا گیا، جہاں انہیں مسجد نبویﷺ کے احاطے میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے خلاف نعرے لگانے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مسجد نبویﷺ واقعہ: ایم این اے راشد شفیق اسلام آباد سے گرفتار

بعدازاں انہیں اٹک کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا کہ جہاں مجسٹریٹ نے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

ریمانڈ ختم ہونے پر شیخ راشد کو دوبارہ اٹک کے ڈیوٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں وکلا کے دلائل کے بعد فاضل جج نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 2 دن کی توسیع کر دی تھی۔

مدعی کے وکیل شیخ احسن الدین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ملزم مسجد نبویﷺ کی توہین کا مرتکب پایا گیا اور سارے ہنگامے کو ملزم نے عمران خان کی فتح قرار دیا۔

یہ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق حکومت کی دیگر اعلیٰ شخصیات کے ساتھ ساتھ 100 سے 150 دیگر افراد کے خلاف اٹک میں درج کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ مسجد نبوی ﷺ پر وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے خلاف نعرے بازی کرنے اور ان سے بدتمیزی کرنے پر دو الگ الگ مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں عمران خان، شیخ رشید اور ان کے بھتیجے سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو نامزد کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شیریں مزاری کا عمران خان کے خلاف ‘توہین مذہب قانون’ کے غلط استعمال پر اقوام متحدہ کو خط

ایک مقدمہ فیصل آباد جبکہ دوسرا اٹک کے تھانے میں درج کیا گیا ہے، اٹک نیو ایئرپورٹ تھانے میں درج کیے گئے مقدمے میں ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اور 296 شامل کی گئی ہیں۔

قبل ازیں فیصل آباد میں درج مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 (کسی مذہب کی عبادت گاہ کو توہین کے ارادے سے نقصان پہنچانا یا ناپاک کرنا)، 295 اے (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کارروائیاں کرنا جس کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا ہے)، 296 (مذہبی اجتماع کو پریشان کرنا) اور 109 (کسی غلط عمل کی حوصلہ افزائی کرنا) شامل کی گئی ہیں۔

مقدمات میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں اور دیگر ساتھی فواد چوہدری، شہباز گِل، قاسم سوری، صاحبزادہ جہانگیر، انیل مسرت کے علاوہ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید اور ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں