فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ 'غلط' قرار دے دی

اپ ڈیٹ 20 مئ 2022
پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مسترد کیے گئے بینک اکاؤنٹس پارٹی اجازت کے بغیر کھولے گئے — فائل فوٹو: اے پی
پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مسترد کیے گئے بینک اکاؤنٹس پارٹی اجازت کے بغیر کھولے گئے — فائل فوٹو: اے پی

الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو ناقص اور غلط قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا ہے کہ پینل، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی ہدایات پر شیڈول بینکوں کی جانب سے اسے فراہم کردہ اکاؤنٹس کی مکمل تفصیلات دکھانے میں ناکام رہا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں ای سی پی کے تین رکنی بینچ کے سامنے حتمی تکنیکی دلائل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے مالیاتی ماہر نجم الثاقب شاہ نے دعویٰ کیا کہ اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹس میں باؤنس ہونے والے چیک کی رقوم کو غلط طریقے سے ظاہر کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے موصول ہونے والی تمام رقم ظاہر شدہ کھاتوں میں جمع کرائی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کے پینل میں آڈٹ کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے، پی ٹی آئی

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے صرف ان بینک برانچوں کی تفصیلات فراہم کی جہاں پارٹی کے اکاؤنٹس کھلے ہوئے تھے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے ان کی سالانہ آڈٹ رپورٹس میں اکاؤنٹس کی کُل تعداد واضح نہیں کی۔

نجم الثاقب شاہ نے کہا کہ 15 مارچ کو پی ٹی آئی کی جانب سے 11 بینک اکاؤنٹس کو مسترد کر دیا گیا تھا جو ای سی پی کمیٹی کی چار سال کی جانچ پڑتال کے دوران اس کی ملکیت تھے مگر وہ درحقیقت صوبائی اکاؤنٹس تھے جہاں مرکزی اکاؤنٹس سے رقم متعلقہ صوبوں میں پارٹی امور چلانے کے لیے منتقل کی گئی تھی۔

یہ اکاؤنٹس پہلی مرتبہ 15 مارچ کو ای سی پی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں سامنے آئے تھے، اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے صفحہ 92 کے مطابق پی ٹی آئی نے مالی سال 12-2008 کی سالانہ آڈٹ رپورٹس میں صرف دو بینک اکاؤنٹس کا انکشاف کیا اور سال 2013 کے لیے چار اکاؤنٹس ڈکلیئر کیے تھے، اس کے برعکس اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ پارٹی نے 2008 میں پانچ، 2009 میں سات، 2010 میں 13، 2011 میں 14 اور 13-2012 میں 14 اکاؤنٹس چھپائے تھے۔

رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنے تحریری جواب میں یہ کہتے ہوئے 11 اکاؤنٹس کو مسترد کردیا تھا کہ یہ اکاؤنٹس 2018 میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے انکشاف پر پی ٹی آئی کے علم اور معلومات میں آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس، الیکشن کمیشن سے 8 سال تاخیر کی وضاحت طلب

پارٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ ان اکاؤنٹس کو کھولنے، آپریٹ کرنے اور ان میں فنڈز وصول کرنے والوں نے ایسا بغیر کسی اجازت کیا، اس سے متعلق پارٹی کی قیادت سے اجازت نہیں لی گئی تھی اور یہ بینک اکاؤنٹس پی ٹی آئی کے شعبہ خزانہ کی معلومات کے بغیر چلائے گئے۔

جب نجم ثاقب شاہ نے اپنے دلائل مکمل کیے تو پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور خان نے ای سی پی بینچ سے درخواست کی کہ وہ سوئٹزرلینڈ کے دورے پر جارہے ہیں اس لیے کارروائی جون کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی جائے۔

وکیل نے اصرار کیا کہ پی ٹی آئی کے مالیاتی ماہر کے حتمی دلائل کے دوران انہیں موجود ہونا چاہیے، جس پر سی ای سی نے سماعت یکم جون تک ملتوی کردی۔

بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اور فارن فنڈنگ کیس کے درخواست گزار اکبر ایس بابر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر 11 اکاؤنٹس پی ٹی آئی کے اعلیٰ رہنماؤں نے غیر قانونی طور پر کھولے اور آپریٹ کیے تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں