پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس، الیکشن کمیشن سے 8 سال تاخیر کی وضاحت طلب

سیاسی جماعتوں کو ای سی پی کی کارروائی سے شکایات نہیں ہونی چاہئیں، تاہم عدالت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی جماعت کے خلاف امتیازی سلوک نہ ہو، چیف جسٹس— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
سیاسی جماعتوں کو ای سی پی کی کارروائی سے شکایات نہیں ہونی چاہئیں، تاہم عدالت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی جماعت کے خلاف امتیازی سلوک نہ ہو، چیف جسٹس— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے وضاحت طلب کی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف 8 سال سے جاری فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرنے میں کیوں تاخیر ہورہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کسی بھی کیس کو اتنے طویل عرصے کے لیے زیر التوا نہیں رہنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا تمام سیاسی جماعتیں فنڈنگ کے ذرائع ای سی پی میں جمع کرواتی ہیں؟ اور کیا ہر سال ان کی اسکروٹنی کی جاتی ہے؟

الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر قانون نے عدالت کو بتایا کہ کسی اکاؤنٹس میں بے ضابطگی کی صورت میں ہی ای سی پی اکاؤنٹس کی اسکروٹنی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت چاہیے تو اس معاملے میں تفصیلی رپورٹ جمع کرواسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں کرنے کا عدالتی حکم معطل

عدالت میں پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست میں الیکشن کمیشن پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو رعایت دے کر صرف پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی اسکروٹنی کے عمل میں تیزی لا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل خاور شاہ نے اس کیس میں ان کی طرف سے تاخیر نہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے نکتہ اٹھایا کہ دو کیسز میں اسکرونٹی کمیٹی تشکیل دی گئی، ایک کمیٹی پی ٹی آئی کے خلاف جبکہ دوسری کمیٹی دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف اسکروٹنی کے لیے بنائی گئی۔

ای سی پی کے وکیل کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کے خلاف 2014 میں اکبر ایس بابر نے شکایت کی تھی۔ جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف شکایات 2018 اور 2020 میں کی گئی تھیں، لہٰذا پی ٹی آئی فنڈنگ کیس پرانا ہے اور ای سی پی دیگر کیسز سے پہلے پی ٹی آئی کیس میں فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی سے نہیں روکا، کیسز کو ان کی ٹائم لائن کے مطابق ترجیح دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ای سی پی کی کارروائی سے شکایات نہیں ہونی چاہئیں، تاہم عدالت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی جماعت کے خلاف امتیازی سلوک نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی نے 30 دن کی ڈیڈ لائن کو چیلنج کردیا

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کسی سیاسی جماعت کے اکاؤنٹس میں شفافیت کے حوالے سے ای سی پی جواب طلب کرے گا اور اگر شفافیت ثابت نہیں ہوتی تو کمیشن کو ان اکاؤنٹس کو ضبط کرلینا چاہیے۔

بعد ازاں کیس کی سماعت 30 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔

انور منصور خان نے دلائل دیتے ہوئے غیر ملکی کمپنیز سے عطیات وصول کرنے کے حوالے سے تفصیل سے بات کی۔

انہوں نے غیر ملکی کمپنیوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے درمیان لکیر کھینچتے ہوئے بتایا کہ سیاسی جاعتیں غیر ملکی کمپنیوں سے اسی صورت میں عطیات وصول کرسکتی ہیں جب وہ کمپنیاں ملٹی نیشنل نہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کےآرڈر (پی پی او) 2002 میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ جماعتیں عطیات اور 'کنٹری بیوشن' صرف انفرادی لوگوں سے ہی وصول کرسکتی ہیں۔

انہوں نے اصرار کیا کہ پی پی او نے کوئی بھی فنڈز یا فنڈز کا کوئی بھی حصہ غیرملکی شہریوں سے لینے پر پابندی لگائی ہے۔

غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈز کی وصولی

پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے تسلیم کیا کہ غیر ملکی کمپنیوں سے سے پی ٹی آئی کی فنڈنگ ہوئی ہے، اس کا انکشاف ای سی پی میں جمع کرائے گیے ریکارڈ میں بھی کیا گیا تھا، ان کمپنیوں کی شناخت اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی طرف سے منگوائے گیے ریکارڈ سے ہوئی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارٹی نے تصدیق شدہ ریکارڈ اسکروٹنی کمیٹی کے پاس جمع کروایا ہے، بعدازاں کمیٹی کو پتا چلا کہ جمع کروایا جانے والا ریکارڈ تصدیق شدہ نہیں ہے۔

انور منصور نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی نے مالی سال 2013 میں فنڈنگ وصولی کی تفصیلات جمع نہیں کروائی تھیں حالانکہ پارٹی کے پاس تفصیلات موجود تھیں۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ سماعت کا فیصلہ

اسکروٹنی کمیٹی کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیٹی نے مالی سال 2013 کی فنڈنگ کی تفصیلات جمع کروانے کی متعدد بار درخواست کی تاہم پی ٹی آئی نے ریکارڈ جمع نہیں کروایا۔

وکیل نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی کے رجسٹرڈ ٹرسٹ یا آسٹریلیا اور کینیڈا کی کمپنیوں سے وصول ہونے والے فنڈز کی تفصیلات ای سی پی میں جمع نہیں کروائی جاسکتیں، کیونکہ مقامی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔

کیس کی سماعت آج (بدھ) تک کے لیے ملتوی کر دی گئی، آج ہونے والی سماعت میں پی ٹی آئی کے 'چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ' دیگر ممالک سے آنے والے فنڈز کی وضاحت کرنے کے ساتھ، ان فنڈز کو پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس کے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں