'پنجاب اسمبلی میں جو سلوک ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ ہوا وہ افسوسناک تھا'

اپ ڈیٹ 01 جون 2022
وکیل (ق) لیگ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر اپوزیشن کے ساتھ ملے ہوئے تھے —فائل فوٹو: ڈان نیوز
وکیل (ق) لیگ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر اپوزیشن کے ساتھ ملے ہوئے تھے —فائل فوٹو: ڈان نیوز

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں ریمارکس دیے ہیں کہ پوری دنیا کی اسمبلیوں میں جھگڑے ہوتے ہیں لیکن جو اس دن ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ ہوا وہ افسوسناک تھا۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کا انتخاب کالعدم کرانے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63-اے کا اطلاق ماضی سے ہوگا میں نے تین عدالتی نظیریں دی ہیں، سپریم کورٹ کا مختصر حکم نامہ بھی عملدرآمد کے لیے کافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کہتا ہے جس کے پاس عددی اکثریت ہوگی وہ وزیر اعلیٰ بنے گا، اسپیکر کے فیصلوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے، عدالتیں پارلیمانی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز کے حلف کا معاملہ: صدر، گورنر کو کیس میں فریق بنانے کی ہدایت

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے الیکشن کے وقت اسپیکر نے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کیا، اس معاملے پر اس عدالت میں پٹیشن دائر کی گئی اور پھر انٹرا کورٹ اپیل میں الیکشن کروانے کا حکم دے دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں صرف اس وقت مداخلت کر سکتی ہیں جب اسپیکر کے کسی اقدام میں بدنیتی ہو۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تشریح سے قبل بھی 63 اے موجود تھا اور لاگو تھا، اب سپریم کورٹ نے واضح فیصلہ دیا کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔

یوں اب بظاہر کسی کے پاس بھی عددی اکثریت موجود نہیں ہے اور آئین کے آرٹیکل 130 کے مطابق وزیر اعلی کے پاس عددی اکثریت ہونی چاہیے، چنانچہ یہ معاملہ دوبارہ وزیر اعلیٰ کے الیکشن کی طرف ہی جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری بار ووٹنگ میں 186 ووٹ لینے ہوں گے، اگر کوئی 186 ووٹ نہیں لے سکا تو جو زیادہ ووٹ لے گا وہ وزیر اعلیٰ منتخب گا۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز کی حلف برداری کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر لارجر بینچ تشکیل

چیف جسٹس امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ اسمبلی میں کُل اراکین کی تعداد کتنی ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ اسمبلی 371 اراکین پر مشتمل ہے، ایک سیاسی پارٹی کے اراکین اسمبلی دوسری پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں، سپریم کورٹ نے یہ روک دیا ہے۔

اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے یہ تاریخی کیس ہے، پورا ملک اس عدالت کی طرف دیکھ رہا ہے۔

مسلم لیگ (ق) کے وکیل ایڈووکیٹ عامر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب نے اسمبلی میں پولیس داخل کی اور ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے حکم دیا تھا۔

وکیل نے مزید کہا کہ عدالت نے ایسا حکم جاری نہیں کیا تھا، متعدد اراکین پولیس کی مداخلت کے باعث ووٹ نہیں ڈال سکے۔

یہ بھی پڑھیں: حلف برداری سے متعلق حمزہ شہباز کی درخواست اعتراض ختم ہونے پر سماعت کیلئے مقرر

چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا سب نے دیکھا، بظاہر سیکریٹری اسمبلی نے اس موقع پر اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔

وکیل (ق) لیگ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر اپوزیشن کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے معاملے کو دوسری جانب لے جا رہے ہیں، جو ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ ہوا سب نے ٹی وی پر دیکھا۔

عدالت نے مزید کہا کہ اسمبلی کے اندر لوگوں کو داخل ہونے سے روکنا سیکریٹری اسمبلی کا کام تھا، اسمبلی میں لوٹے گئے یہ شرمناک تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پوری دنیا کی اسمبلیوں میں جھگڑے ہوتے ہیں لیکن جو اس دن ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ وہ افسوسناک تھا۔

انہوں نے کہا کہ سیکریٹری اسمبلی، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے ماتحت ہے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سیکریٹری کے ماتحت نہیں۔

مزید پڑھیں: حلف لینے سے انکار، حمزہ شہباز کا گورنر پنجاب کیخلاف عدالت جانے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی اس معاشرے میں رہتے ہیں، ٹی وی پر سب دیکھا کہ اس دن کیا ہوا۔

ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ جب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے الیکشن سے قبل ریفرنس سپریم کورٹ میں زیرِ التوا تھا تو سپریم کورٹ نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کا حق سب کو ہے لیکن 63-اے کے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔

بعدازاں عدالت نے فریقین کے وکلا کو دلائل کے لیے طلب کر لیا اور درخواستوں پر سماعت 6 جون تک ملتوی کردی۔

پی ٹی آئی کی درخواست

لاہور ہائی کورٹ میں درخواست پی ٹی آئی کے رہنما سبطین خان سمیت 5 اراکین پنجاب اسمبلی کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سمیت دیگر افراد کو فریق بنایا گیا۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے روز پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کے اراکین پنجاب اسمبلی کو حمزہ شہباز کی ایما پر اسمبلی سے نکال دیا گیا تھا۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پولیس نے ہمارے ووٹرز کو حق رائے دہی استعمال کرنے سے زبردستی روکا، قانون کے مطابق اسمبلی سیشن کے دوران ایوان میں کسی غیر متعلقہ شخص کے آنے پر پابندی ہے تو پولیس ایوان میں کیسے داخل ہوئی۔

ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں مزید کہا گیا کہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی نے نجی لوگوں کا داخلہ روکا مگر ڈپٹی سیکریٹری نے 300 لوگوں کو بلایا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ کا انتخاب کالعدم قرار دینے کی درخواست پر حمزہ شہباز کو نوٹس جاری

اپیل میں پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ احمد سلیم بریار نے ووٹ نہیں ڈالا مگر ان کا نام بھی ووٹ ڈالنے والے اراکین پنجاب اسمبلی کی فہرست میں موجود ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ حمزہ شہباز کا انتخاب غیر قانونی ہے، اسے کالعدم قرار دیا جائے اور حمزہ شہباز کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کامیابی کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔

عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ خالی قرار دیا جائے اور حمزہ شہباز کو کام کرنے اور خود کو چیف ایگزیکٹو ظاہر کرنے سے روکا جائے۔

پرویز الہٰی کی درخواست

دوسری جانب پرویز الہٰی نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ یہ اعلان کرے کہ حمزہ وزیراعلیٰ نہیں ہیں کیونکہ وہ سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں منحرف اراکین کے ووٹس کو شمار نہ کر کے وہ مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ اس طرح 16 اپریل کے انتخابات، اس کے نتائج اور پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے حمزہ شہباز کو ان کی کامیابی کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ قانونی طور پر بے اثر ہے۔

درخواست میں ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ حمزہ شہباز کی جانب سے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کیے گئے تمام نتیجہ خیز اقدامات، تمام خط و کتابت، جاری کردہ احکامات اور نوٹی فکیشن وغیرہ کو کالعدم قرار دیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں