حکومت، طالبان کے درمیان مذاکرات میں شرکت کیلئے قبائلی جرگہ کابل پہنچ گیا

01 جون 2022
سابق گورنر خیبر پختونخوا نے کہا کہ ہم پرامید ہیں کہ ہماری کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی — فوٹو: اخوندزادہ چٹان ٹوئٹر
سابق گورنر خیبر پختونخوا نے کہا کہ ہم پرامید ہیں کہ ہماری کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی — فوٹو: اخوندزادہ چٹان ٹوئٹر

برسوں سے جاری تشدد اور تنازعات کو معاہدے کے ذریعے ختم کرنے کے لیے حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جاری مذاکرات میں ایک بڑا قبائلی جرگہ بھی شرکت کرے گا۔

قبائلی جرگے سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا کے سابق گورنر شوکت اللہ خان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ قبائلی روایات کی نظر میں جرگے کا اہم کردار ہے جس کا دونوں طرف سے احترام کیا جاتا ہے، جبکہ ہم پرامید ہیں کہ ہماری کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی۔

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے شوکت اللہ خان نے کہا کہ 50 سے زائد افراد اس جرگے کا حصہ ہیں جس میں ایک وفاقی وزیر، خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندگان اور قبائلی عمائدین شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا جنگ بندی میں توسیع کا اعلان

انہوں نے بتایا کہ سابق وفاقی وزیر ساجد حسین طوری جن کا تعلق قبائلی ضلع کرم سے ہے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف بھی اس جرگے کا حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے جرگہ بنیادی طور پر جنوبی وزیرستان کے لوگوں پر مشتمل ہوتا تھا جس میں خصوصی طور پر ملاکنڈ ڈویژن سے قبائلی عمائدین شامل ہوتے تھے، لیکن اس بار خیبر کے قبائلی عمائدین شاہ جی گل آفریدی کو بھی اس جرگے کا حصہ بنایا گیا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

کابل سے ایک پاکستانی عہدیدار نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ کچھ پیش رفت کے ساتھ مذاکرات سنجدہ مراحل میں داخل ہو چکے ہیں، تاہم انہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہوئے اس مرحلے میں مزید تفصیلات دینے سے انکار کیا۔

پاکستانی ذرائع نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ جرگہ بدھ کی روز کابل پہنچا تھا۔

کابل روانگی سے قبل پیپلز پارٹی کے رہنما اخوندزادہ چٹان نے، جو جرگے کا بھی حصہ ہیں، اسلام آباد ایئرپورٹ سے تصاویر پوسٹ کیں اور پشتو میں لکھا کہ ’کابل روانہ ہورہے ہیں‘۔

گزشتہ روز ڈان نے رپورٹ کیا تھا کہ ٹی ٹی پی اور پاکستانی فریقین نے غیر معینہ مدت تک جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، جسے اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اعتماد سازی کا ایک بڑا اقدام سمجھا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا 12 روز کیلئے جنگ بندی کا اعلان

تحریک طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے جنگ بندی سے متعلق رپورٹس سے انکار نہیں کیا لیکن انہوں نے کہا ہے کہ جنگ بندی سے متعلق باضابطہ فیصلہ آج یا کل ہونے کا امکان ہے۔

اس سے قبل جنگ بندی کی تاریخ 30 مئی کو ختم ہو چکی ہے۔

افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ڈان ڈاٹ کام کی طرف سے حالیہ مذاکرات سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کوئی جواب نہیں دیا، تاہم انہوں نے گزشتہ ماہ اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان کابل میں مذاکرات ہو رہے ہیں اور یہ کہ امارات اسلامیہ نے مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔

ٹوئٹر پر لکھے گئے اپنے ٹوئٹس میں انہوں نے مذاکرات میں ’اہم پیش رفت‘ کی تصدیق کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ دونوں اطراف سے جنگ بندی پر اتفاق ہوگیا ہے۔

انہوں نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ امارات اسلامیہ افغانستان نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، ہمیں امید ہے کہ فریقین مل جل کر رہیں گے اور سمجھوتہ کریں گے۔

تحریک طالبان کے دو اہم رہنماؤں مسلم خان اور محمود خان کی رہائی اور ان کے افغان طالبان کے حوالے کرنے کے بارے میں بھی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان، ٹی ٹی پی کے درمیان ثالث ہیں لیکن معاہدہ نہیں ہوا، افغان وزیر خارجہ

دونوں رہنما ان 100 سے زائد قیدیوں کی فہرست میں شامل تھے جن کی رہائی تحریک طالبان کے اہم مطالبات میں سے ایک تھی۔

تاہم تحریک طالبان اور حکومت کی جانب سے دونوں اہم رہنماؤں کی رہائی کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔

طالبان کے اہم رہنما مسلم خان تحریک طالبان پاکستان کے سوات میں ترجمان رہ چکے ہیں اور انہیں 2009 میں گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں 2016 میں انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی جس کی آرمی چیف نے بھی تصدیق کی تھی۔

رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ انہیں صدارتی حکم نامے کے ذریعے معاف کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں