پی ٹی آئی حکومت کے مقرر کردہ دو پراسیکیوٹرز کو ہٹانے کی درخواست پر وزارت داخلہ کا غور

اپ ڈیٹ 15 جون 2022
وزارت داخلہ کو دونوں پراسیکیوٹرز کو ہٹانے کے لیے درخواست کی گئی ہے— فائل فوٹو: گیٹی امیجز
وزارت داخلہ کو دونوں پراسیکیوٹرز کو ہٹانے کے لیے درخواست کی گئی ہے— فائل فوٹو: گیٹی امیجز

اسلام آباد: وزارت داخلہ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت کے مقرر کردہ دو پراسیکیوٹرز کو ہٹانے کی درخواست کا جائزہ لے رہی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر صدر عارف علوی، عمران خان سمیت متعدد سابق وزرا کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے سامنے اعترافی بیان دے کر پارلیمنٹ ہاؤس حملہ کیس سے بری کرانے میں سہولت فراہم کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر خان جدون نے پراسیکیوٹرز میاں عامر سلطان گورایا اور فاخرہ عامر سلطان کو ہٹانے کے لیے 6 جون کو سیکریٹری داخلہ کو خط لکھا جنہیں پارلیمنٹ میں درج تین ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کے خلاف کارروائی کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ سال 2014 میں وفاقی دارالحکومت میں پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس اور پی ٹی وی پر حملے کیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی وی، پارلیمنٹ حملہ کیس: عمران خان کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 15 مارچ 2022 کو صدر عارف علوی، اس وقت کے وزیراعظم، وزرا شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شفقت محمود، پرویز خٹک اور پی ٹی آئی رہنما سیف اللہ خان نیازی کو بری کر دیا تھا۔

مزید براں پارٹی کے منحرف رہنما جہانگیر خان ترین، عبدالعلیم خان اور دیگر کو بھی بری کر دیا گیا تھا کیونکہ استغاثہ نے 3 مارچ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ ایف آئی آر سیاسی بنیادوں پر بنائی گئی تھیں۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی طرف سے سیکریٹری داخلہ کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں میاں عامر سلطان گورایا اور محترمہ فاخرہ عامر سلطان ریاست کی جانب سے پراسیکیوٹر کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے اس دفتر کی اجازت کے بغیر فاضل جج کی عدالت میں پیش ہو کر اعتراف کیا اور میرٹ پر مقدمات کے حوالے سے بحث نہیں کی۔

خط میں کہا گیا کہ انہوں نے اس دفتر کو کوئی اطلاع نہیں دی اور تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا، انہوں نے 15 مارچ 2022 کے حکم نامے کی تصدیق شدہ نقول کے لیے بھی آج تک درخواست نہیں دی اور جان بوجھ کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے میں تاخیر کی۔

یہ بھی پڑھیں: صدر، وفاقی وزرا سمیت پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت پارلیمنٹ حملہ کیس سے بری

ایڈووکیٹ جنرل نے سیکریٹری داخلہ سے کہا کہ اوپر درج احوال کی روشنی میں یہ خصوصی پبلک پراسیکیوٹرز کی بدانتظامی ہے اور انہیں اس دفتر کی سفارش پر فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔

استغاثہ کے انچارج سابق ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ خان نیازی نے رابطہ کرنے پر کہا کہ 2014 کا دھرنا پرامن تھا اور اس وقت کی مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے حکم پر پولیس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔

انصاف لائرز فورم کے سینئر رہنما نیاز اللہ خان نیازی کے مطابق پولیس نے اس وقت کی حکومت کی ہدایت پر عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور دیگر کے نام شامل کیے، اس لیے ایف آئی آر کو منسوخ ہوجانا تھا۔

پولیس نے 21 اگست 2014 کو ایف آئی آر میں 82 ملزمان کو نامزد کیا تھا۔

ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا تھا کہ تین افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوئے جب کہ 60 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، استغاثہ نے اپنا مقدمہ قائم کرنے کے لیے 65 تصاویر، لاٹھیاں، کٹر وغیرہ عدالت میں جمع کرائے تھے۔

استغاثہ کا مؤقف تھا کہ احتجاج پرامن نہیں تھا، پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب مارچ کیا جہاں شاہراہ دستور پر تعینات پولیس اہلکاروں کے ساتھ ان کی جھڑپ ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی دھرنا کیس: تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت حاضری سے مستثنیٰ قرار

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہیں نومبر 2014 میں اشتہاری مجرم قرار دیا تھا کیونکہ وہ سمن اور وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔

جولائی 2017 میں عدالت نے انہیں مفرور قرار دیا تھا اور ان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں کو ضبط کرنے کا عمل شروع کیا تھا، تاہم مئی 2018 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کو بری کر دیا تھا۔

عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے رہنما ان مقدمات میں مفرور رہے البتہ اکتوبر 2017 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے جائیدادیں ضبط کیے جانے سے قبل انہوں نے سرنڈر کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں