امریکا کے ساتھ روابط اور بات چیت جاری رہنی چاہیے، روس

15 جون 2022
ترجمان کریملن نے کہا کہ دونوں ممالک کا رابطہ باہمی احترام و مفاد کی بنیاد پر ہونا چاہیے—فائل فوٹو:رائٹرز
ترجمان کریملن نے کہا کہ دونوں ممالک کا رابطہ باہمی احترام و مفاد کی بنیاد پر ہونا چاہیے—فائل فوٹو:رائٹرز

کریملن نے کہا ہے کہ یوکرین میں روس کی جاری جنگ کے باعث کشیدہ صورتحال اور تناؤ کی کیفیت کے درمیان بھی امریکا کے ساتھ روابط اور بات چیت جاری رہنا ضروری ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی خبر کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ایک کانفرنس کال میں رپورٹرز کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بات چیت اور روابط کا برقرار رہنا ضروری ہے جب کہ مستقبل میں بھی ہمیں بات چیت اور تبادلہ خیال کرنا ہوگا۔

اپنی بات کو جاری رکتھے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کہیں نہیں جا رہا، یورپ کہیں نہیں جا رہا، اس لیے ہمیں کسی نہ کسی طرح ان کے ساتھ بات چیت تو کرنی پڑے گی۔

یہ بھی پڑھیں: سرد جنگ کے بعد پہلی بار عالمی جوہری ہتھیاروں میں اضافے کا امکان ہے، تھنک ٹینک

روس اور مغرب کے درمیان تعلقات سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس وقت بد ترین کشیدگی کا شکار ہیں جب کہ ماسکو نے ہزاروں فوجیوں کو جنگ کے لیے یوکرین میں بھیجا ہے جسے وہ 'خصوصی فوجی آپریشن' قرار دیتا ہے

مغربی ممالک نے روس پر بے مثال پابندیاں عائد کرتے ہوئے روس کی جانب سے یوکرین پر جنگ مسلط کرنے کے اقدام کا جواب دیا جب کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو عالمی سطح پر ایک مسترد اور دھتکارا ہوا شخص بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

دوسری جانب روس نے امریکا کو جواب دیتے ہوئے واشنگٹن پر معاشی جنگ چھیڑنے کا الزام لگایا تھا۔

دمتری پیسکوف نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں فوری طور پر اس بات کا امکان نہیں کہ دونوں ممالک اس خاص پوزیشن پر واپس آجائیں جسے وہ جنیوا میں امریکی اور روسی صدور کے درمیان میں ہونے والی ملاقات کی روح قرار دیتے ہیں-

یہ بھی پڑھیں : روسی ناکہ بندی سے عالمی غذائی بحران جنم لے سکتا ہے، یوکرینی صدر کا انتباہ

جنیوا کی روح سے ان کی مراد 2021 میں جو بائیڈن اورولادیمیر پیوٹن کے درمیان ہونے والی سربراہی ملاقات کا حوالہ ہے جس کے دوران دونوں فریقوں میں کچھ حد تک مخاصمت اور دشمنی کی کمی کی امید پیدا ہوئی تھی۔

دمتری پیسکوف نے مزید کہا کہ کیا ان حالات میں جنیوا کی روح کی جانب لوٹنا ممکن ہے جب کہ اس وقت اس کی بہت کم امید ہے، اس موجودہ کشیدہ صورتحال میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہم پرانی امیدوں کے بارے میں سوچ سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں دنیا کی سب سے بڑی جوہری طاقتوں کے درمیان رابطہ اور بات چیت باہمی احترام اور باہمی مفاد کی بنیاد پر ہونی چاہیے لیکن ماضی قریب میں عالمی افق پر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی۔

تبصرے (0) بند ہیں