بھارت: چینی موبائل کمپنی کے دفاتر پر تفتیشی ادارے کے چھاپے

05 جولائ 2022
بھارتی ادارے نے چینی موبائل کمپنی کے کے دفاتر پر چھاپے مارے—فائل فوٹو: اے ایف پی
بھارتی ادارے نے چینی موبائل کمپنی کے کے دفاتر پر چھاپے مارے—فائل فوٹو: اے ایف پی

بھارت میں مالی جرائم کی تحقیقات کرنے والے ادارے نے چینی کمپنی بی بی کے الیکٹرونکس کے زیرانتظام بننے والے ویوو موبائل کے دفاتر اور اس سے جڑے دیگر دفاتر پر چھاپے مارے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق بھارت کے سینئر حکومتی اور انڈسٹری کے سینئر عہدیداروں نے تصدیق کی ہے جبکہ مقامی میڈیا کی خبر کے مطابق انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی تلاش منی لانڈرنگ کی مبینہ تحقیقات کا حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور: بھارتی خفیہ ایجنسی کی ’سرپرستی‘ میں چلنے والا ’افغان‘ دہشت گرد نیٹ ورک پکڑا گیا

ویوو موبائل کمپنی کے ترجمان نے ای میل کے ذریعے بیان میں کہا کہ ویوو بھارتی حکام کے ساتھ تعاون کر رہا ہے تاکہ انہیں تمام مطلوبہ معلومات فراہم کی جا سکیں، ایک ذمہ دار کارپوریٹ کے طور پر ہم قوانین کی مکمل پاسداری کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی ادارے نے اس معاملے پر درخواست کے باوجود کوئی ردعمل نہیں دیا تاہم ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ یہ تحقیقات عوامی نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے ویوو کمپنی کے دفاتر پر چھاپے ’رائلٹی کی آڑ میں‘ مبینہ طور پر غیر قانونی ترسیلات بیرون ملک بھیجنے پر شیاؤمی کارپوریشن کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے چند مہینوں بعد لگائے گئے ہیں، یہ کمپنی بھارت کے معروف اسمارٹ فون فروخت کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: بھارتی ایجنسی 'را' سے تعلق رکھنے والے 6 دہشت گردوں کی گرفتاری کا دعویٰ

تاہم شیاؤمی کمپنی نے کسی بھی غلط عمل کی تردید کرتے ہوئے عدالت میں یہ الزام عائد کیا کہ کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو ایجنسی کے اہلکاروں کی طرف سے پوچھ گچھ کے دوران ’جسمانی تشدد‘ کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایجنسی نے ایسے الزامات کی تردید کر دی ہے۔

چین اور بھارت کے درمیان 2020 میں سرحدی تصادم کے بعد سیاسی تناؤ کی وجہ سے بہت سی چینی کمپنیوں کو بھارت میں کاروبار کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

بھارت نے 300 سے زیادہ چینی ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کرنے کے بعد سیکورٹی خدشات اظہار کرتے ہوئے بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کے لیے بھی قوانین میں سختی کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں