قومی اداروں کے حصص دوست ممالک کو فروخت کرنے کیلئے قوانین میں ترمیم کررہے ہیں، مفتاح اسمعٰیل

28 جولائ 2022
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس لین دین کیلئے بات چیت سے قبل ہی کچھ لوگوں نے تنقید شروع کردی—فوٹو : اے پی پی
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس لین دین کیلئے بات چیت سے قبل ہی کچھ لوگوں نے تنقید شروع کردی—فوٹو : اے پی پی

وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے رواں مالی سال 4 ارب ڈالر فنانسنگ گیپ کے تخمینے کے لیے حکومت سرکاری کاروباری اداروں کے حصص دوست ممالک کو فروخت کرنے کے لیے قوانین میں ترمیم کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ درآمدات پر عائد پابندیاں ایک سے دو ہفتوں میں ختم کر دی جائے گی جو لوگوں کے لیے مشکلات کا سبب بنیں، آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کے تحت پہلے سے طے شدہ تمام کارروائیاں مکمل ہو چکی ہیں اور اگست کے آخر میں پہلی قسط حاصل کرنے میں مزید کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

گزشتہ روز منظور ہونے والے ’انٹر گورنمنٹ کمرشل ٹرانزیکشن ایکٹ 2022‘ کا نام لیے بغیر وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ قانون ضروری تھا کیونکہ موجودہ نجکاری قانون حکومتوں کے درمیان ایسی تجارتی لین دین کی اجازت نہیں دیتا۔

کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ کابینہ نے وزارت قانون و انصاف کی جانب سے پیش کردہ ’انٹر گورنمنٹ کمرشل ٹرانزیکشن ایکٹ 2022‘ کی منظوری دی اور اسے پارلیمنٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا۔

یہ بھی پڑھیں: معیشت بہتر ہے، درآمدات میں کمی کی وجہ سے روپے پر دباؤ کم ہوگا، مفتاح اسمٰعیل

کابینہ کو بتایا گیا کہ یہ قانون غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اعتماد فراہم کرے گا اور ترقیاتی معاہدوں میں بین الحکومتی بنیادوں پر غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کرے گا۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ پہلی بار بین الحکومتی معاہدوں کے تحفظ اور انہیں شفاف بنانے کے لیے عملی قدم اٹھایا جا رہا ہے۔

مفتاح اسمعٰیل نے کہا کہ پاکستان کو سرکاری کاروباری اداروں کے حوالے سے مستقل مسائل درپیش ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ بے انتظامی کا شکار ہیں جبکہ ان میں سے کچھ سروس ڈیلیوری کے لیے اہم ہیں لیکن وہ بھی خدمات فراہم نہیں کر رہے اور بجٹ میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

مفتاح اسمعٰیل نے پی آئی اے، سوئی سدرن گیس کمپنی، او جی ڈی سی ایل اور پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے بورڈز کے ساتھ کام کرنے کے ذاتی تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر اداروں میں پیشہ ور افراد کام کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کارکردگی نہیں دکھا رہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ قوانین اور حکومتی ڈھانچہ ان اداروں کی کارکردگی کو محدود کرتے ہیں اس لیے شاید ایسے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بہتر قانون اور حکومتی ڈھانچے یا ان کی نجکاری کو تیز کرنے کے بہتر طریقے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی 'قومی اثاثوں' کو فروخت کرنے کی مخالفت

انہوں نے کہا کہ نیب 20 سال سے قائم ہے لیکن کرپشن کی سطح یا اس کی موجودگی کے تاثر میں کوئی کمی نہیں آئی، اسی طرح پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) اور اس کے قوانین 20 سال سے زائد عرصے سے موجود ہیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ خریداری کے اخراجات کم ہوئے ہیں یا معاملات اس اتھارٹی کے قیام سے پہلے کی نسبت بہتر ہوئے ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہ اس کی وجہ یہ ہےکہ یہ قوانین ایک آڑ ہیں اور کچھ لوگوں کو کام نہ کرنے کا بہانہ فراہم کرتے ہیں لہٰذا حکومتی کاروباری اداروں کے حصص اور وفاقی حکومت کی زیر ملکیت 2 ایل این جی پاور پراجیکٹس (بلوکی اور حویلی بہادر شاہ) کو کسی دوست ملک کو اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے فروخت کرنے کے لیے ان اداروں سے متعلق قوانین میں مناسب انداز میں تبدیلی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس لین دین کے لیے بات چیت شروع ہونے سے قبل ہی کچھ لوگوں نے تنقید شروع کردی جبکہ ہم صرف اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والی تجارت میں شامل حصص فروخت کررہے ہیں اور ہر ادارے کے بہت تھوڑے حصص فروخت کیے جائیں گے، معاشی حالات جب سازگار ہوں گے تو حکومت ان حصص کو واپس خرید سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں