شاہ محمود کی بیٹی کو پارٹی ٹکٹ دینے پر پی ٹی آئی کارکنان سراپا احتجاج

اپ ڈیٹ 06 اگست 2022
این اے۔157 کے ضمنی انتخاب کے لیے مہر بانو قریشی سمیت 018 سے زائد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں—
این اے۔157 کے ضمنی انتخاب کے لیے مہر بانو قریشی سمیت 018 سے زائد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں—

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں نے ملتان میں پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی جانب سے اپنی بیٹی مہربانو قریشی کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-157 کے ضمنی انتخاب میں پارٹی ٹکٹ دینے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ نشست ان کے بیٹے زین قریشی نے خالی کی تھی جنہوں نے پنجاب اسمبلی کے پی پی۔217 سے صوبائی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑا تھا اور حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار سلمان نعیم کو شکست دی تھی۔

مزید پڑھیں: میری جماعت نے 'سازش' کر کے مجھے وزیراعلیٰ پنجاب بننے سے روکا، شاہ محمود قریشی

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے این اے۔157 ملتان، پی پی۔139 شیخوپورہ اور پی پی۔241 بہاولنگر میں ضمنی انتخاب کا شیڈول جاری کر دیا ہے جس میں 11 ستمبر کو پولنگ ہوگی جبکہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 5 اگست مقرر کی گئی ہے۔

این اے-157 کے ضمنی انتخاب کے لیے مہر بانو قریشی، سابق وزیراعظم اور سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی موسیٰ گیلانی، انجینئر وسیم عباس اور سیف الرحمٰن قریشی سمیت 18 سے زائد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

اس حلقے کو شاہ محمود قریشی کا گڑھ اور آبائی نشست سمجھا جاتا ہے، علی موسیٰ گیلانی نے 2012 کے ضمنی انتخاب میں بھی اس نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔

پارٹی کے مقامی رہنما انجینئر وسیم عباس کی قیادت میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے پارٹی میں خاندانی سیاست کو فروغ دینے پر شاہ محمود قریشی اور ان کے خاندان کے خلاف ملتان میں الیکشن کمیشن آفس کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا، کارکنان نعرے لگا رہے تھے اور بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن پر شاہ محمود قریشی اور ان کے خاندان کے خلاف نعرے درج تھے۔

مظاہرین نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے پی پی-217 ملتان سے اپنے بیٹے زین کو میدان میں اتارا تھا اور اب انہوں نے اپنی بیٹی کو ٹکٹ دیا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا شاہ محمود قریشی کو ضمنی الیکشن لڑنے کے لیے کوئی دوسرا امیدوار نظر نہیں آیا؟۔

یہ بھی پڑھیں: شاہ محمود قریشی نے آصف زرداری سے ملاقات کی تردید کردی

پی ٹی آئی کے مقامی رہنما وسیم عباس نے کہا کہ پی ٹی آئی کا آغاز خاندانی سیاست کو چیلنج کرنے کے نعرے کے تحت کیا گیا تھا اور کارکن پارٹی کو روایتی اور خاندانی پارٹی میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی چیئرمین عمران خان سے درخواست کی ہے کہ انہیں این اے-157 کا ضمنی انتخاب لڑنے کے لیے ٹکٹ دیا جائے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ اگر مجھے پارٹی ٹکٹ نہیں ملا تو میں آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑوں گا۔

اپنی امیدواری کے بارے میں مہر بانو قریشی نے ٹوئٹ کیا کہ این اے-157 کے ضمنی انتخاب کے لیے اپنی امیدواری کا اعلان کرنے کے بعد سے ساری جعلی خبریں، جعلی تصاویر اور پوسٹرز اور جھوٹے بیانات مجھ سے منسوب کیے جا رہے ہیں، مجھے تعجب ہے کہ اگر میں ایک مرد ہوتی تو کیا یہ معاملہ مختلف ہوتا، بہرحال سخت محنت اور اپنے آپ کو ثابت کرنے پر میں خوش ہوں۔

اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ایک آڈیو بیان میں انہوں نے دلیل دی کہ پی ٹی آئی اور میرے والد نے عمران خان کے بیانیے کو زندہ رکھنے کے لیے ہماری خاندانی روایات کے خلاف مجھے (ضمنی انتخاب کے لیے) منتخب کیا، میں صرف پاکستان تحریک انصاف کی ووٹر نہیں ہوں بلکہ میں پارٹی سے جڑی ہوئی ہوں اور 2018 سے اس کی سوشل میڈیا ٹیم کے ساتھ کام کر رہی ہوں۔

ایک ٹوئٹر صارف نے ان کی امیدواری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے ایک کٹر حامی کے طور پر میں واقعی آپ کے والد شاہ محمود قریشی کی عزت کرتا ہوں لیکن میں خاندانی سیاست کے بالکل خلاف ہوں۔

مہربانو قریشی نے صارف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی رائے کا احترام کرتی ہوں لیکن مجھے یہ الیکشن لڑنے کے لیے میرے حلقے نے منتخب کیا ہے، مجھے پارٹی کا عہدہ یا قیادت نہیں دی گئی، یہ کوئی مخصوص نشست نہیں ہے، مجھے اس کے لیے لڑنا پڑے گا، یہ بہت مشکل الیکشن ہے لیکن میں اپنے کپتان کے وژن کو زندہ رکھنے کے لیے لڑوں گی۔

پی ٹی آئی کے حامی تجزیہ کاروں اور پارٹی کے حامیوں نے مہر بانو کو ٹکٹ دینے کے عمران خان کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے منافقت قرار دیا، ان میں سے کچھ نے ٹوئٹ کیا کہ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں لپ خاندانی سیاست کے خلاف آواز اٹھانے والے عمران خان شاہ محمود قریشی کی بیٹی کو ٹکٹ کیوں دیں گے، انہوں نے مہر بانو قریشی کو پارٹی میں اپنے والد کے عہدے کا فائدہ اٹھانے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ کارکن صرف زندہ باد مردہ باد کے لیے ہیں، ٹکٹیں باپ، بیٹا اور بیٹی کے لیے ہیں، کچھ نے اس بات پر بھی اچھنبے کا اظہار کیا ایک علاقے (ملتان) کی تین نشستوں پر ایک ہی خاندان کے افراد کیسے قابض ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: شاہ محمود قریشی چاہیں گے کہ وہ وزیراعظم بنیں، پی ٹی آئی رکن اسمبلی

جمعرات کی رات شاہ محمود قریشی نے اپنی بیٹی کی امیدواری متعارف کرانے کے لیے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے مہر بانو قریشی کو این اے-157 کے ضمنی انتخاب کے لیے میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کے لیے 5 فیصد خواتین کو میدان میں اتارنے کے اصول ہیں، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خاندانی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں، تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارٹی نے این اے-157 میں پارٹی کارکنوں سے رائے مانگی ہے جنہوں نے ان کی حمایت کی۔

2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے زین قریشی نے این اے 157 سے 77 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی اور ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے علی موسیٰ گیلانی نے تقریباً 70 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں