یورپی یونین کی پاکستان میں حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان عدم تعاون کی نشاندہی

اپ ڈیٹ 10 اگست 2022
یورپی یونین کا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کی کارکردگی فرسودہ ریگولیٹری فریم ورک سے متاثر ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
یورپی یونین کا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کی کارکردگی فرسودہ ریگولیٹری فریم ورک سے متاثر ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

یورپی یونین نے مشاہدہ کیا ہے کہ پاکستان میں 2008 سے 3 عام انتخابات اور سویلین حکومتوں کے درمیان 2 بار اقتدار کی پرامن منتقلی کے باوجود حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان عدم تعاون کے سبب ملکی سیاست انتہائی متعصبانہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملٹی اینوئل انڈیکیٹیو پروگرام (ایم آئی پی) برائے 2022-2021 پر پاکستان اور یورپی یونین نے حال ہی میں دستخط کیے ہیں۔

اس پروگرام کے مطابق ملکی سیاست اور انتظامیہ میں فوج کے کردار کو استحکام کی ضمانت کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن سویلین گورننس کی استعداد کم کرنے پر یہ ہدف تنقید بھی ہے۔

یہ تازہ ترین پروگرام پاکستان کی اسٹریٹجک ترقی کی ترجیحات اور یورپی کمیشن کے مجموعی جغرافیائی سیاسی پروگرام کی پیروی کرتاہے جس کا مقصد پائیدار جامع ترقی، ملازمتوں کا فروغ، گورننس اور انسانی ترقی کو آگے بڑھانے اور امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، یورپی یونین کے ساتھ مضبوط تعلقات کا خواہاں ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ

نئے ایم آئی پی کی مدت 2021 سے 2027 تک 7 سال ہے اور اسے 2024 میں ہونے والی پیش رفت کے وسط مدتی جائزے کے ساتھ 2 مرحلوں میں نافذ کیا جائے گا۔

یہ جائزہ ممکنہ طور پر یورپی یونین کی ترجیحات اور اقدامات کو ابھرتی ہوئی اقتصادی، سماجی اور سیاسی پیش رفت کے ساتھ ساتھ حاصل ہونے والے اسباق کی روشنی میں نئے سرے سے متعین کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔

اس مقصد کے لیے یورپی یونین نے ساڑھے 26 کروڑ یوروز کی ابتدائی گرانٹ مختص کی ہے، 2023 کے عام انتخابات کے بعد ملٹی اینول انڈیکیٹیو پروگرام (ایم آئی پی) اور ’وژن 2025‘ پر نظر ثانی کا امکان ہے۔

یورپی یونین دستاویز کے مطابق اس نظرثانی سے ایم آئی پی کے دوسرے نصف حصے کو حکومت کی نئی حکمت عملی کے ساتھ دوبارہ ترتیب دینا ممکن ہوگا۔

مزید پڑھیں: یورپی یونین کا ایران اور پاکستان کیلئے امداد کا اعلان

پاکستان میں 2008 میں فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد سویلین حکومتوں کے درمیان اقتدار کی مسلسل دوسری پُرامن منتقلی نسبتاً پرسکون انداز میں 2018 کے انتخابات میں ہوئی تاہم ملک میں سلامتی کی صورتحال اور انصاف تک رسائی بدستور ایک چیلنج ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کی کارکردگی فرسودہ ریگولیٹری فریم ورک سے متاثر ہے، لہٰذا صلاحیت کو مضبوط بنانے اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بہتر ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت ہے، یہ صورتحال داخلی سلامتی اور اداروں پر شہریوں کے اعتماد کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے ماحول کو بھی متاثر کرتی ہے۔

اس پروگرام کا مقصد اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی پائیداری، توانائی، قانون کی حکمرانی، بہتر طرز حکمرانی اور انسانی حقوق میں تعاون کو بڑھانا ہے۔

اس پروگرام کے تحت قدرتی آفات کے خطرے کے انتظام کو مربوط کیا جائے گا تاکہ یورپی یونین کی انسانی امداد سے تعاون یافتہ اقدامات پر استوار اقتصادی سرگرمیوں کی پائیداری کو بڑھایا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان دوطرفہ تجارت میں 78فیصد اضافہ

یہ پروگرام پورے ملک کا احاطہ کرتا ہے تاہم اس کے تحت زیادہ تر مجوزہ معاونت افغانستان اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ساتھ مغربی سرحد سے متصل پسماندہ علاقوں اور گلگت بلتستان کی سرزمین پر مرکوز ہوگی۔

زراعت پاکستان کا اہم اقتصادی شعبہ ہے اور پانی کی دستیابی پر دباؤ بڑھ رہا ہے، زمین کی غیر منقسم تقسیم زرعی مسابقت اور معاش کے مواقع پر منفی اثر ڈالتی ہے اور چھوٹے کسانوں اور بے زمین خاندانوں کو غربت میں جھونک دیتی ہے۔

زرعی پیداوار سے خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کر نے کے لیے توانائی تک رسائی ایک اہم عنصر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں