ڈیجیٹل ڈیٹا سے موت کا خوف: افغانی باشندے اپنے ہی ملک میں جلاوطن

اپ ڈیٹ 09 اگست 2022
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ سرکاری خدمات، ملازمتوں تک رسائی اور ووٹ ڈالنے کے لیے اس آئی ڈی  کی ضرورت ہوتی ہے  —فائل فوٹو: رائٹرز
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ سرکاری خدمات، ملازمتوں تک رسائی اور ووٹ ڈالنے کے لیے اس آئی ڈی کی ضرورت ہوتی ہے —فائل فوٹو: رائٹرز

صدف گزشتہ برس کابل میں اٹارنی جنرل کے دفتر میں اپنے کام میں مصروف تھیں کہ اچانک انہیں ان کی بہن نے فون کیا اور انہیں اس خبر سے آگاہ کیا کہ طالبان دارالحکومت میں داخل ہو چکے ہیں اور انہیں گھر جانے کو کہا۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق صدف کو ان کی بہن نے خوف زدہ لہجے میں کہا کہ ’اپنا چہرہ ڈھانپ لو اور کسی کو مت بتاؤ کہ کہاں ملازمت کرتی ہو۔‘

صدف کو معلوم نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہوگا مگر ڈیجیٹل ڈیٹا کے ذریعے موت سے بچنے کے لیے یہ اپنے ہی ملک میں جلاوطن رہنے کی شروعات تھی۔

مزید پڑھیں: پشاور میں افغانستان کا پرچم آویزاں کرنے والا افغان شہری گرفتار

ہزاروں افغان باشندوں کی طرح صدف نے بھی متعدد محفوط گھروں میں اپنا گزشتہ سال گزارا اور اپنے 'ڈیجیٹل ٹریل' سے بچنے اور طالبان کو اس کے ذریعے اپنے خاندان کا پتا لگنے سے روکنے کے لیے پرامید تھیں۔

جب صدف کی بہن نے انہیں طالبان کے اقتدار پر قبضے کی خبر دی تو وہ اپنا بیگ پکڑ کر، چہرے پر نقاب کرکے، ملازمت کا آئی ڈی کارڈ جوتوں میں چھپا کر دفتر سے نکلنے لگیں۔

صدف دفتر سے باہر نکلیں تو ہر طرف شور تھا، گلیوں اور سڑکوں پر لوگوں اور گاڑیوں کی بھیڑ تھی جو ہر طرف بھاگ رہے تھے اور وہاں سے نکلنے کے لیے بے چین تھے، اس دوراں صدف نے گھر جانے کےلیے کچھ مسافت کے بعد کرائے پر ایک گاڑی پکڑی جس کے ذریعے وہ 2 گھنٹوں بعد اپنے گھر پہنچیں۔

گھر پہنچتے ہی صدف نے جلدی سے اپنے تین بچوں کو گلے لگایا اور خود کو کمرے میں بند کرتے ہوئے اپنے تمام شناختی دستاویزات نکالے اور کام سے متعلق کاغذات جمع کرکے باتھ روم میں جلا دیئے۔

یہ بھی پڑھیں: تین روز میں پاکستان سے 700 افغان شہری ملک بدر

25 برس سے سرکاری دفتر میں ملازمت کرنے والی 48 سالہ صدف نے اپنے نام کا آخری حصہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ میں بہت خوفزدہ تھی اور وہ اس خطرے کو اچھی طرح جانتی تھیں جس کا اسے سامنا ہے۔

صدف کے خوف زدہ ہونے کی اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اس سے قبل طالبان نے ان کی گاڑیوں کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا تھا جن میں سے 2 بم دھماکوں میں صدف زخمی ہوئی تھی جبکہ ان کے کافی ساتھی جاں بحق ہو گئے تھے۔

صدف نے افغانستان میں کسی نامعلوم مقام سے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے کہا کہ ’میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی بھی چیز طالبان کے ہاتھ آئے‘ ۔

طالبان کے اقتدار حاصل کرنے کے ایک ہفتہ بعد کچھ افراد نے صدف کے گھر کا رخ کیا اور کافی وقت وہاں تلاشی لی، ان کو معلوم تھا کہ صدف کہاں کام کرتی ہیں اس لیے انہوں نے خبردار کرتے ہوئے پیغام چھوڑا کہ وہ نظر رکھے ہوئے ہیں۔

دوسرے دن صدف نے اپنا تمام سامان سمیٹا اور اپنے بچوں اور خاوند کے ساتھ وہاں سے نکل گئیں جس کے بعد سے وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے گھروں میں قیام کرتے رہے ہیں اور کسی بھی جگہ دو ہفتوں سے زیادہ قیام نہیں کر رہے۔

مزید پڑھیں: طالبان نے افغان شہریوں کے انخلا پر عارضی پابندی عائد کردی

صدف کا کہنا ہے کہ ملازمت کی وجہ سے میں خطرے میں ہوں۔

صدف ان ہزار افغان باشندوں میں شامل ہے جن میں سابق سرکاری اہلکار، جج، پولیس اور انسانی حقوق کے کارکنان بھی شامل ہیں جو ایک سال تک اس خوف سے روپوش ہیں کہ ڈیجیٹل آئی ڈی اور ڈیٹا سسٹمز کے ذریعے ان تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے جو عسکریت پسندوں نے حکومت کی تبدیلی سے حاصل کیے تھے۔

گزشتہ برسوں میں انسانی حقوق کے کارکنان اور اقوام متحدہ نے سیکڑوں سیکیورٹی فورسز، صحافیوں، ججوں، انسانی و سماجی حقوق کے کارکنان اور ایل جی بی ٹی افراد کے لاپتا ہونے اور قتل ہونے پر دستاویزی کام کیا ہے۔

تاہم طالبان کے ترجمان نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

بہت سے غریب ممالک کی طرح افغانستان نے حالیہ برسوں میں ورلڈ بینک، امریکا، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (یو این ایچ دی آر) ورلڈ فوڈ پروگرام اور دیگر کی جانب سے فنڈنگ اور مہارت کے ساتھ اپنے ڈیٹا کو ڈیجیٹل کرنے پر زور دیا ہے۔

ایسا ہی ایک پروگرام ڈیجیٹل آئی ڈی سسٹم ہے جس کو ای-تذکرہ بھی کہا جاتا ہے، اس میں ذاتی اور بائیو میٹرک ڈیٹا کا ذخیرہ ہوتا ہے جس میں کسی شخص کا نام، شناختی نمبر، جگہ اور تاریخ پیدائش، جنس، ازدواجی حیثیت، مذہب، نسل، زبان، پیشہ، ایرس اسکین، فنگر پرنٹس، اور ایک تصویر وغیرہ شامل ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ سرکاری خدمات، ملازمتوں تک رسائی اور ووٹ ڈالنے کے لیے اس آئی ڈی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ پسماندہ نسلی گروہوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں تک بھی رسائی فراہم کرتا ہے جو لوگ حکومت میں یا غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکی انخلا کے بعد بھی 15 لاکھ افغان شہریوں کی پاکستان میں ہی رہنے کو ترجیح

غیر منافع بخش افغان سول سوسائٹی فورم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عزیز رفیعی، جنہیں چھپے ہوئے افغانوں کی طرف سے روزانہ سینکڑوں مایوس کن پیغامات موصول ہوتے ہیں، نے کہا کہ ہر کوئی پسماندہ ہے، یہ سسٹم شروع سے ہی ایک بڑی غلطی تھے۔

عزیز رفیعی، جس نے اسی نتیجہ کے خوف سے ای-تذکرہ کے لیے درخواست نہیں دی، نے کہا کہ افغانستان جیسے ملک میں ہمیشہ یہ امکان رہتا ہے کہ معلومات دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائیں گی اور آپ کو قتل کیا جا سکتا ہے۔

اس سال ہیومن رائٹس واچ نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ طالبان نے حکومت اور سپریم کورٹ کے پے رول ڈیٹا، پولیس اور فوج کے بائیو میٹرک سسٹم اور غیر ملکی حکومتوں اور امدادی ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنے والوں کی ڈیٹا پر کنٹرول کیا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایک سینیئر محقق بیلکیس ولی نے کہا کہ جو لوگ چھپے ہوئے ہیں ان کے لیے پتا لگانے سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کیونکہ طالبان چیک پوائنٹس، تصاویر، انگلیوں کے نشانات، ایرس اسکین کے ساتھ ہر شناخت کی جانچ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح لوگوں کے لیے یہ مشکل ہے کہ جن گھروں میں وہ چھپے ہوئے ہیں وہاں سے نکل سکتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر کوئی شخص ملک چھوڑنے کے پیش نظر پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے پاسپورٹ دفتر جاتے ہیں تو ان کی شناخت کسی کے لیے بھی واضح ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل مکمل

بائیو میٹرک رجسٹریشن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ عمل درست شمار اور ضرورت مند لوگوں کی شناخت کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ زیادہ مؤثر امداد کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے اور جعلسازی کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ رجسٹریشن کو پروفائلنگ اور نگرانی کے لیے غلط استعمال کیا جا سکتا ہے اور بہت سے لوگوں میں سب سے زیادہ پسماندہ افراد کو خارج کر دیا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس گروپ ایکسیس ناؤ کے رمن جیت سنگھ چیما نے کہا کہ افغانستان میں ہونے والے واقعات سے شناختی نظام کے خطرات واضح ہو گئے ہیں جو انسانی حقوق پر ممکنہ اثرات پر غور کیے بغیر، اور غلط استعمال کو روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات کے بغیر بنائے گئے ہیں۔

رمن جیت سنگھ چیما نے کہا کہ گزشتہ برس کے دوراں ڈیجیٹل حقوق کے کارکنان و تنظیموں نے امدادی ایجنسیوں، غیر ملکی عطیہ دہندگان، اور ٹیلی کام اور ٹیک کمپنیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات پر نظر ثانی کریں کہ وہ بائیو میٹرک ڈیٹا کیسے اکٹھا کرتی ہیں، اور مطالبہ کیا کہ نقصان کو روکنے کے لیے اپنے سسٹم کو محفوظ بنائیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: افغان شہریوں کی مدد کے لیے نئی پالیسی منظور

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے لیے سنگین مضمرات کے حامل ڈیجیٹل آئی ڈی پروگرام اب بھی لاگو کیے جا رہے ہیں یہاں تک کہ زیادہ خطرے یا بحران زدہ ماحول میں بھی ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

ایسی صورتحال میں صدف ابھی تک خود کو چھپانے میں مصروف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف روزگار کی کمی اور غربت تو دوسری طرف خوف نے میری زندگی میں مشکلات بڑھا دی ہیں مگر میں سوچتی ہوں کہ کاش یہ ایک خواب ہو اور میں نیند سے اٹھ جاؤں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں