جبری گمشدگیوں پر ریاستی اداروں کے دائرہ اختیار کے تعین کیلئے قانون سازی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 31 اگست 2022
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بھی بری طرح ناکام ہوا ہے— فائل فوٹو : اے پی پی
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بھی بری طرح ناکام ہوا ہے— فائل فوٹو : اے پی پی

جبری گمشدگیوں کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب میں سابق ارکان اسمبلی اور سماجی کارکنان نے مطالبہ کیا کہ ریاستی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دائرہ کار کے تعین کے لیے قوانین متعارف کروانے کا عمل یقینی بنایا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاستدانوں اور وکلا کی ایک بڑی تعداد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے دفتر کے باہر جمع ہوئے اور مطالبہ کیا کہ ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔

پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک نئے قانونی ڈھانچے کی ضرورت ہے اور انٹیلی جنس اداروں کو قانون کے دائرے میں لانا اس کا مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: جبری گمشدگی کمیشن کو 4 ماہ میں 318 شکایات موصول

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو اس بات کی ضمانت فراہم کرنی چاہیے کہ گرفتار افراد کو حراست کی مجاز جگہ پر رکھا جائے اور متاثرین، ان کے اہل خانہ اور گواہوں کو تحفظ اور معاوضہ فراہم کیا جائے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ غیر قانونی اغوا اور حراست پر پابندی کے قوانین پہلے سے موجود ہیں جن کے تحت ہزاروں ایف آئی آرز درج کی جا چکی ہیں لیکن ان پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی کیونکہ اس میں ملوث کردار ’قانون سے بالاتر‘ دکھائی دیتے ہیں۔

فرحت اللہ بابر نے یاد دہانی کروائی کہ دسمبر 2015 میں سینیٹ کی مجموعی کمیٹی نے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار پر قانون سازی کے لیے تقریباً نصف درجن تجاویز پیش کی تھیں۔

مزید پڑھیں: 'ریاستی جبری گمشدگی' کے شکار 7 خاندانوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو ان سفارشات پر عمل درآمد کرنا چاہیے تھا یا پھر اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجوہات کے ساتھ اسے واپس سینیٹ میں بھیجا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بھی بری طرح ناکام ہوا ہے، کسی ایک معاملے میں بھی جرم کے مرتکب کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا گیا، کمیشن کو ختم کرکے نیا کمیشن بنایا جائے‘۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جون 2021 میں قومی اسمبلی میں ایک ادھورا بل پیش کیا گیا تھا لیکن یہ بل بھی غائب نظر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جبری گمشدگیوں سے متعلق ’پالیسی پر غور‘ کیلئے کمیٹی تشکیل

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے اس معاملے پر وزارتی ذیلی کمیٹی کا قیام درست سمت کی جانب ایک قدم ہے۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ذیلی کمیٹی تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے جامع قانون سازی کی تجویز دے گی، جبری گمشدگیوں کو ایک علیحدہ جرم کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ریجن کے لیے کوآرڈینیٹر ایچ آر سی پی اسلام آباد نسرین اظہر نے کہا کہ اس بات کے قابل اعتماد شواہد موجود ہیں کہ ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے عمل میں ملوث ہیں۔

مزید پڑھیں: جبری گمشدگی کے ذمہ داروں کے تعین میں لاپتا افراد کمیشن ناکام رہا، آئی سی جے

انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ اس طرح کے جرائم 1990 کی دہائی میں سامنے آنا شروع ہوئے تھے لیکن 11/9 کے بعد بڑے پیمانے پر بڑھ گئے۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ جبری گمشدگیاں ایک سنگین جرم ہے جس کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس عمل میں بعض طاقتور ریاستی اداروں کی شمولیت ثابت ہو چکی ہے لیکن بدقسمتی سے ریاست ان کے غیر قانونی اقدامات کے لیے انہیں جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہی ہے، جبری گمشدگیوں کے حوالے سے انکوائری کمیشن بھی اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے‘۔

اس موقع پر انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری حاضر نے شرکا کو بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیوں اور ان کی بحفاظت بازیابی کے لیے جاری کوششوں کے بارے میں آگاہ کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں