'ریاستی جبری گمشدگی' کے شکار 7 خاندانوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 24 فروری 2022
سندھ ہائی کورٹ نے لا افسر کو معاوضے کی پالیسی کے بارے میں آگاہ کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی— فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
سندھ ہائی کورٹ نے لا افسر کو معاوضے کی پالیسی کے بارے میں آگاہ کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی— فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکام کو 10 مارچ تک لاپتا افراد کے اہل خانہ کے لیے معاوضے کی پالیسی سے آگاہ کرنے کی ہدایت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے حکام سے 6 لاپتا افراد سے متعلق بھی دریافت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ بھی جبری گمشدگی کے زمرے میں آتے ہیں تو ان کی تصدیق کی جائے۔

بینچ نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ایک درجن کے قریب ایک جیسی درخواستوں کی سماعت شروع کی تو کیس میں عدالت کے معاون جبران ناصر نے بینچ کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان درخواستوں میں 13 لاپتا افراد ہیں جو اچھے عہدوں پر تھے اور کئی سال پہلے لاپتا ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتا افراد کیس: آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز کو جواب جمع کرانے کا حکم

انہوں نے دلیل دی کہ لاپتا خاندانوں کو معاوضہ فراہم کرنا آئین کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے، انہوں نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ وہ پہلے ہی سابقہ حکم کی روشنی میں متعلقہ تفصیلات فراہم کر چکے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکم نامے کے مطابق 13 لاپتا افراد میں سے 7 لاپتا افراد کے کیسز کو جے آئی ٹیز (مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں) نے ریاستی جبری گمشدگی قرار دیا جب کہ باقی لاپتا افراد کے حوالے سے مختلف اجلاس کیے گئے لیکن ابھی تک ان لاپتا افراد کی حیثیت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

انہوں نے بینچ سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ متعلقہ حکام کو ہدایت جاری کرے کہ وہ باقی لاپتا افراد کی حیثیت کا بھی تعین کریں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شہریار مہر نے کم از کم ان 7 افراد کے خاندانوں کو ابتدائی طور پر معاوضہ فراہم کرنے کے لیے صوبائی حکومت سے ہدایات حاصل کرنے کے لیے وقت مانگا جن کے مقدمات اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق جبری گمشدگی قرار دیے جا چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: لاپتا افراد بازیابی کیس: سندھ ہائی کورٹ کا پولیس کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم

انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا لاپتا افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

تاہم سندھ ہائی کورٹ نے قانونی افسر کو معاوضے کی پالیسی کے بارے میں آگاہ کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال بینچ نے تجویز دی تھی کہ خاندانوں کو لاپتا افراد کی اس وقت کی کمائی کے بارے میں تفصیلات جمع کرانی ہوں گی جس وقت وہ لوگ لاپتا ہوئے، اس کے ساتھ متاثرہ خاندانوں کی جانب سے کیے جانے والے گھریلو اخراجات کی تفصیلات بھی جمع کرائی جائیں تاکہ ان تفصیلات کے ذریعے ان اخراجات کی تصدیق ہو سکے اور اس سلسلے میں باقاعدہ حکم نامہ منظور کیا جاسکے۔

اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے محکمہ سماجی بہبود کے سیکریٹری، بیت المال کے ڈائریکٹر اور انسانی ترقی کے سیکریٹری کو لاپتا افراد کے اہل خانہ کو مالی امداد فراہم کرنے کے طریقوں سے متعلق آگاہ کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتا افراد کے جرائم کی تفصیلات پیش کی جائیں: سپریم کورٹ

عدالت نے وفاقی اور صوبائی قانونی افسر کو ایسے معاملات میں عدالت کی مدد کرنے کی بھی ہدایت کی جن میں خاندان کے سربراہ لاپتا ہیں اور ان کے خاندان مالی بحران کا شکار ہیں۔

جبری گمشدگی ٹاسک فورس

صوبائی لا افسر نے بینچ کو بتایا کہ گزشتہ حکم پر عمل کرتے ہوئے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل (اے جی) کے دفتر اور محکمہ داخلہ کی جانب سے جبری گمشدگی ٹاسک فورس کی تشکیل کے لیے ایک مسودہ تیار کرلیا گیا ہے تاکہ خاص طورپر لاپتا افراد کے کیسز پر توجہ مرکوز کی جاسکے۔

اے جی سلمان طالب الدین نے کہا کہ مجوزہ مسودہ منظوری کے لیے عدالت میں جمع کرادیا گیا ہے، درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے مسودے کو دیکھنے کے لیے وقت طلب کیے جانے پر بینچ نے سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔

اس سے قبل بینچ نے لاپتا افراد کے کیسز میں پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی روایتی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور صوبائی حکام کو ایسے کیسز پر خاص توجہ دینے کے لیے ایک جبری گمشدگی ٹاسک فورس تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں