حملوں کے باوجود حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی برقرار

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2022
ایک عہدیدار نے کہا کہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے، جنگ بندی برقرار ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
ایک عہدیدار نے کہا کہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے، جنگ بندی برقرار ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

حکام کا کہنا ہے کہ متعدد حملوں کے باوجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان جنگ بندی برقرار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی اضلاع میں تقریباً 2 دہائیوں سے جاری تنازعات کے خاتمے کے لیے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات اس وقت سے تعطل کا شکار ہیں جب سے بیش تر قبائلی معززین پر مشتمل وفد نے جولائی کے اختتام تک مذاکرات کیے۔

ایک عہدیدار نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی پیش رفت نہیں ہوئی البتہ جنگ بندی برقرار ہے‘۔

حال ہی میں یہ اطلاعات سامنے آنے کے بعد امن مذاکرات پر سوال اٹھائے گئے کہ ٹی ٹی پی کے مسلح عسکریت پسند سوات، دیر اور قبائلی اضلاع کے کچھ حصوں میں واپس آ گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے ٹی ٹی پی سے کامیاب مذاکرات کے امکانات ’محدود‘ ہیں، اقوام متحدہ

اس حوالے سے اگرچہ حکومت کی جانب سے کوئی اعلانیہ تبصرہ نہیں کیا گیا لیکن مذکورہ علاقوں میں واپس آنے والے عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا تھا ہے کہ ان کی واپسی ایک معاہدے کے تحت ہوئی ہے، تاہم کابل میں ہونے والے مذاکرات سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ’واحد معاہدہ غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی اور عسکریت پسندوں کی واپسی اور معاشرے میں ان کے دوبارہ انضمام جیسے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا تسلسل برقرار رکھنے کے بارے میں ہوا تھا‘۔

ذرائع نے وضاحت کی کہ ’ہماری جانب سے مطالبہ یہ تھا کہ ٹی ٹی پی کو ختم کیا جائے اور وہ غیر مسلح ہو کر واپس آئیں گے، یقیناً وہ اس سے متفق نہیں تھے، ہم نے بھی ان کے کچھ مطالبات سے اتفاق نہیں کیا‘۔

مزید پڑھیں: حکومت سے مذاکرات میں پیش رفت، ٹی ٹی پی کا غیرمعینہ مدت کیلئے جنگ بندی کا اعلان

مئی کے جنگ بندی معاہدے کے بعد ہونے والے حملوں کے حوالے سے ٹی ٹی پی مسلسل اصرار کر رہی ہے کہ اس نے جب بھی اور جہاں بھی حملہ کیا اپنے دفاع میں کیا، ان حملوں کے نتیجے میں ڈیرہ اسمٰعیل خان اور پشاور میں پولیس اہلکار مارے گئے۔

ان کا مؤقف ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ دونوں فریق اپنے دفاع کے لیے آزاد ہیں، ایک حالیہ پوسٹ میں ٹی ٹی پی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر شرائط کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔

فی الحال یہ مکمل طور پر واضح نہیں کہ کن حملوں کے پیچھے کون ہے اور بھتہ خوری کے بڑھتے واقعات کا ذمہ دار کون سا گروپ ہے تاہم ٹی ٹی پی نے اس میں اپنے ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور متاثرین سے کہا ہے کہ وہ ایسے واقعات کی رپورٹ کریں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات اور مفاہمت تک پہنچنے کے حوالے سے شفافیت کی عدم موجودگی سے عوام کا اضطراب اور خدشات بڑھیں گے۔

اس بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں کہ افغان طالبان کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی ثالثی اور براہ راست نگرانی میں ہونے والے مذاکرات کے دوران ٹی ٹی پی کی قیادت اور سینئر پاکستانی مذاکرات کاروں کے درمیان کیا گفتگو ہوئی یا کس بات پر اتفاق کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں 30 مئی تک توسیع کردی

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی، دونوں کے نزدیک قابل احترام شخصیت مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں علمائے کرام کی ایک ٹیم کو عسکریت پسند قیادت کو یہ یقین دلانے کے لیے بھیجا گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں کچھ بھی 'غیر اسلامی' نہیں ہے۔

بطاہر کچھ ایسے اشارے ملے تھے کہ مذاکرات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے جس کی وجہ سے کچھ حلقوں میں یہ امید پیدا ہوئی کہ دونوں فریقین کے درمیان جلد معاہدہ طے پاجائے گا لیکن پھر سوات کے سیاحتی مقام پر مسلح عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آئیں، جس سے خطے میں ایک دہائی سے زیادہ امن اور صورتحال معمول پر آنے کے بعد پرتشدد واقعات کا نیا سلسلہ شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہوا۔

اگست کے اوائل میں دیر سے پی ٹی آئی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی پر حملہ اس قسم کا پہلا اشارہ تھا، اس حملے میں وہ شدید زخمی ہوئے جبکہ 4 دیگر افراد جاں بحق ہو گئے، تاہم ٹی ٹی پی نے اس واقعے کہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا۔

تاہم پولیس اور سیکیورٹی حکام کو پختہ یقین ہے کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے افغانستان سے دیر کے راستے سوات جاتے ہوئے رکن صوبائی اسمبلی کو ان کے آبائی ضلع میں ویلج ڈیفنس کمیٹی کی سربراہی کرنے پر سزا دینے کے لیے گھات لگا کر حملہ کیا، اس کمیٹی نے کچھ عسکریت پسندوں کی جانب سے ریاست کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے معاملے کی نگرانی کی تھی۔

مزید پڑھیں: پاکستان، ٹی ٹی پی کے درمیان ثالث ہیں لیکن معاہدہ نہیں ہوا، افغان وزیر خارجہ

اس کے فوراً بعد ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے پورے خطے میں صدمے کی لہر دوڑ گئی اور عوامی غصے اور احتجاجی مظاہروں کا باعث بنی، مسلح عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے مٹہ ذیلی ضلع کے پہاڑی علاقے پیوچار میں ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو 3 دیگر افراد کے ساتھ یرغمال بنا لیا۔

اس معاملے پر ایک جرگہ حرکت میں آیا جس نے ان یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنایا، کالعدم ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ ان کے جوانوں نے یہ کارروائی اپنے دفاع میں کی۔

حکومت نے خاموشی سے عسکریت پسندوں کے تعاقب میں فورسز کو بھیجا لیکن ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ وہ پہلے ہی اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر افغانستان واپس چلے گئے تھے، تاہم اس معاملے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوسکی۔

تبصرے (0) بند ہیں