پاکستان کے ٹی ٹی پی سے کامیاب مذاکرات کے امکانات ’محدود‘ ہیں، اقوام متحدہ

اپ ڈیٹ 29 مئ 2022
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے رواں سال تقریباً 46 حملے کیے گئے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے رواں سال تقریباً 46 حملے کیے گئے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ نے افغانستان سے تعلق رکھنے والی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کے بارے میں یاد دہانی کرواتے ہوئے خبردار کیا ہے ملک میں جاری امن مذاکرات کی کامیابی کے امکانات ’کم‘ ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 1988 کی سالانہ رپورٹ میں طالبان سینکشنز کمیٹی کی نگراں ٹیم نے مطلع کیا ہے کہ ٹی ٹی پی، افغان طالبان کے ساتھ منسلک ہے۔

انہوں نے وضاحت دی کہ گزشتہ سال غنی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد گروپ مستفید ہوا ہے اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے دیگر گروپوں سے رابطے میں ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تقریباً 4 ہزار جنگجو پاکستان اور افغانستان سرحد سے متصل جنوبی مشرقی اور مشرقی علاقوں میں مقیم ہیں اور یہاں غیر ملکی جنگجوؤں کا ایک بڑا گروپ تشکیل دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، ٹی ٹی پی کے درمیان ثالث ہیں لیکن معاہدہ نہیں ہوا، افغان وزیر خارجہ

گزشتہ سال طالبان کے کابل پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد یہ کمیٹی کے لیے ٹیم کی پہلی رپورٹ ہے، اس میں درحقیقت طالبان کی اندرونی سیاست، ان کی مالی معاونت، القاعدہ، داعش اور دیگر عسکریت پسند جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات اور اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کی پابندیوں پر توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔

اتفاقیہ طور پر یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے کہ جب حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے تیسرے مرحلے کا آغاز ہوا ہے۔

پاکستان اور کالعدم تنظیم کے درمیان مذاکرات کا پہلا مرحلہ گزشتہ سال شروع ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک ماہ تک جنگ بندی جاری رہی تھی، تاہم کالعدم ٹی ٹی پی نے اسلام آباد پر معاہدے میں کیے گئے وعدے پورے نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے جنگ بندی ختم کردی تھی۔

بعد ازاں ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستانی فورسز پر دوبارہ حملے شروع کردیے گئے تھے، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں سال تقریباً 46 حملے ہوئے جس میں بیشتر حملے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں 30 مئی تک توسیع کردی

مذکورہ حملوں میں 79 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

30 مارچ کو کالعدم ٹی ٹی پی نے افغانستان میں امریکی جنگ کے دوران اپنائی گئی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کے خلاف ’جارحانہ کارروائی‘ کا اعلان کیا۔

خیال رہے دونوں فریقین کے درمیان امن معاہدہ طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے تعاون سے کروایا گیا تھا۔

دریں اثنا ٹی ٹی پی نے عید کے موقع پر جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے اس میں توسیع کردی تھی، یہ اعلان پاکستان کی جانب سے سزائے موت پانے والے متعدد کمانڈوز کی رہائی کے بعد سامنے آیا تھا۔

مذاکراتی مرحلہ، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کر رہے تھے، دونوں فریقین کی جانب سے اپنے مطالبات پیش کرنے کے ساتھ ختم ہوا۔

ٹی ٹی پی نے سابقہ قبائلی علاقوں سے سیکیورٹی فورسز کی واپسی، فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کو کالعدم قرار دینے، اس کے جنگجوؤں کے خلاف مقدمات واپس لینے، ان کی رہائی اور مالاکنڈ ڈویژن میں شریعت پر مبنی 'نظام عدل' کو متعارف کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہوگیاہے، فواد چوہدری

دوسری جانب سیکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ یہ مطالبات ناقابل قبول ہیں اور ان کی قبولیت کا مطلب ریاست کا سر تسلیم خم کرنا ہوگا، لیکن پھر بھی حکومتی وفد مذاکرات کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوا ہے۔

تازہ ترین مرحلے کے تحت جاری حکومتی فریق کی اولین ترجیح جنگ بندی میں توسیع حاصل کرنا ہے، جس کی میعاد 30 مئی کو ختم ہو رہی ہے۔

تاہم پاکستانی فریق نے مذاکرات پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ ’گروپ (ٹی ٹی پی) پاکستانی ریاست کے خلاف طویل المدتی مہم پر مرکوز ہے‘، یعنی ’جنگ بندی کے معاہدوں کی کامیابی کے محدود امکانات ہیں‘۔

مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی کے افغان طالبان سے تعلقات برقرار ہیں، اقوام متحدہ

رپورٹ میں اس بات پر خاص طور پر غور کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی، حال ہی میں 17 منقسم گروپوں کی واپسی کے ذریعے دوبارہ متحرک ہوئی ہے، ان کا ماننا ہے کہ حکومت پاکستان کے ساتھ بات چیت میں سخت گیر مؤقف برقرار رکھنے سے اس کی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔

سراج الدین حقانی کے حقانی نیٹ ورک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغان طالبان کے اندر گروپ بندی سے آزاد ہے، انہوں نے اس عمل میں ایک ثالث کے طور پر کام کیا، یہ عمل ٹی ٹی پی اور دیگر پشتون گروپوں پر ان کے اثر و رسوخ کو نمایاں کرتا ہے۔

رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا کہ دیگر غیر ملکی عسکریت پسند گروپوں کے مقابلے میں ٹی ٹی پی کو پچھلے سال طالبان کے قبضے کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا اور اس نے اس موقع کو پاکستان میں حملے اور کارروائیاں کرنے کے لیے استعمال کیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے جنگجوؤں کو طالبان کے ساتھ ضم کرنے کا دباؤ محسوس کرنے کے بجائے بیشتر غیر ملکی دہشت گردوں کی طرح واحد قوت کے طور پر موجود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں