افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ افغان طالبان پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔

بی بی سی اردو کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ افغان طالبان پاکستان میں دونوں فریقین کی خواہش پر ثالث کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

مزیدپڑھیں: امریکا کا پاکستان، ٹی ٹی پی مذاکرات پر ’خاص ردعمل‘ دینے سے انکار

امیر خان متقی نے کہا کہ دونوں فریق اب تک کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچے ہیں لیکن اس عمل کا ’اچھا‘ آغاز ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس عمل کو مستقبل میں کسی قسم کی رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعلقات بہتر ہوں گے۔

’داعش افغانستان کے لیے خطرہ ہے‘

قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ داعش افغانستان کے لیے خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’تاہم طالبان کی حکومت نے اسے ملک کے ایک بڑے حصے سے ختم کر دیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے ان علاقوں کو داعش کی موجودگی سے پاک کر دیا ہے، جہاں وہ موجود تھے جہاں کابل کی سابق حکومت تھی۔

یہ بھی پڑھیں: افغان وزیر خارجہ نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے جنگ بندی معاہدے کو خوش آئند قرار دے دیا

امیر خان تقی نے کہا کہ طالبان کے کنٹرول کے بعد داعش نے مخصوص علاقوں میں جمع ہونا شروع کر دیا تھا لیکن طالبان کی حکومت نے انہیں ’کنٹرول‘ کرنے اور انہیں مخصوص علاقوں تک محدود کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے۔

انہوں نے کہا کہ مساجد جیسی جگہوں پر دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں، جو دنیا میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔

’افغانستان بھارت سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ تنازع نہیں چاہتا‘

بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر افغان عہدیدار نے کہا کہ افغانستان بھارت سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ تنازع نہیں چاہتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان کا کسی دوسرے ملک کے ساتھ تنازع ہو یا ایسے چیلنجز پیدا ہوں جن سے ہماری قوم متاثر ہو، اس لیے ہم اس معاملے پر کام جاری رکھیں گے۔

بھارت کے ساتھ افغانستان کے قریبی تعلقات پر چین یا پاکستان کی طرف سے ردعمل آیا ہے؟ امیر خان متقی نے ماسکو میں ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کا حوالہ دیا۔

مزیدپڑھیں: ‘حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی مکمل سیز فائر پر آمادہ’

انہوں نے کہا کہ جب ہم نے ماسکو کانفرنس میں شرکت کی تو بھارت، پاکستان اور کئی دیگر ممالک کے نمائندے بھی موجود تھے، ہماری مثبت بات چیت ہوئی اور امید ہے کہ کسی ملک کی مخالفت نہیں کریں گے۔

’خواتین کو ان کے حقوق سے محروم نہیں رکھا جائے گا‘

افغان عہدیدار نے اس تاثر کو بھی زائل کیا کہ خواتین کو مختلف شعبوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کی صحت کے شعبے میں 100 فیصد شرکت کی اجازت ہے، وہ تعلیم کے شعبے میں بھی پڑھا رہی ہیں، وہ ان شعبوں میں سے ہر ایک میں کام کر رہی ہیں جہاں ان کی ضرورت ہے۔

امیر خان متقی نے کہا کہ ہماری ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے کہ خواتین کو کسی بھی شعبے میں ان کے حقوق سے محروم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت نے سابقہ حکومت میں کام کرنے والی کسی خاتون کو برطرف نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنخواہوں کے ساتھ تعلیم اور روزگار کے مواقع بھی متاثر نہیں ہوئے۔

’افغان حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کرتی ہے‘

انٹرویو کے دوران افغان حکومت کے عہدیدار نے کہا کہ طالبان کی حکومت نے بین الاقوامی برادری کے ایک جامع حکومت کے مطالبے کو پورا کیا، جو افغان معاشرے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کرتی ہے۔

مزیدپڑھیں: ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، معید یوسف

اگر دنیا طالبان کو تسلیم نہیں کرتی ہے تو اس گروپ کا مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات میں آگے بڑھ رہی ہے اور امید ظاہر کی کہ یہ تعلقات مستقبل میں مزید مضبوط ہوں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ چونکہ افغان حکومت تمام علاقوں اور نسلوں کی نمائندگی پر مشتمل ہے، اس لیے دنیا کو اسے تسلیم کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں