پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) کو پشاور اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو معطل کرکے ان کے خلاف شہری کو 2 ہفتے تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور پنجاب پولیس کے حوالے کرنے کے الزام کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس روح الامین خان اور جسٹس شاہد خان پر مشتمل بینچ نے آئی جی کے پی پولیس کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کے ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) کو اس معاملے پر ان کی جانب سے کی گئی کارروائی سے متعلق 15 روز کے اندر آگاہ کریں۔

پشاور ہائی کورٹ نے یہ حکم بڈھ بیر علاقے کے رہائشی سہیل خان کے والد بادام خان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کو نمٹاتے ہوئے جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کا فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 196 مجرمان کو رہا کرنے کا حکم

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ زیر حراست شخص ضلع گوجرانوالہ میں درج فوجداری مقدمے میں پنجاب پولیس کی تحویل میں تھا۔

عدالت عالیہ کے بینچ نے آئی جی کے پی پولیس کو ہدایت کی کہ وہ ایک ایماندار اور غیر جانبدار پولیس افسر کے ذریعے معاملے انکوائری کرائیں تاکہ اس کی حقیقت کا پتا لگایا جاسکے اور جرم کا ارتکاب کرنے والے ایس ایچ او کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس کو بڈھ بیر تھانے کے ایس ایچ او کے خلاف انکوائری کرتے ہوئے گورنمنٹ سرونٹ (ایفیشینسی اینڈ ڈسپلنری) رولز 2011 کی پابندی کرنی چاہیے جس کے سیکشن 6 کے تحت انکوائری کا سامنا کرنے والے افسر کو شفاف انکوائری کرنے کے لیے معطل کیا جانا چاہیے تاکہ انکوائری افسر کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رپورٹ تیار کی جاسکے۔

درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ صفدر اقبال خٹک پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ سہیل خان کو بڈھ بیر تھانے کے ایس ایچ او اعجاز نبی نے 15 اگست کو گاؤں کے دیگر افراد کی موجودگی میں گرفتار کیا۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 230 مجرموں کی درخواستوں پر تحریری دلائل طلب

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار نے کچھ مقامی بزرگوں کے ساتھ اپنے بیٹے کے ٹھکانے کے بارے میں جاننے کے لیے ایس ایچ او سے رابطہ کیا لیکن ایس ایچ او نے اس بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا جس کی وجہ سے درخواست دائر کی گئی۔

ایس ایچ او 30 اگست کو بینچ کے سامنے پیش ہوئے تھے اور انہیں اگلے روز زیر حراست شخص کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ایس ایچ او 31 اگست عدالت میں پیش ہوئے اور حکم کی تعمیل کے لیے مزید وقت طلب کیا جس پر عدالت نے کیس کی سماعت یکم ستمبر تک ملتوی کردی تھی۔

اگلی سماعت پر ایس ایچ او، ڈی ایس پی (لیگل) محمد آصف کے ہمراہ بینچ کے روبرو پیش ہوئے اور رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ تھانہ بڈھ بیر کے ایس ایچ او سمیت دیگر تھانوں کے اہلکاروں نے درخواست گزار کے بیٹے کو گرفتار نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائی کورٹ میں ڈرون حملوں کی تفصیلات طلب

رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیر حراست شخص 5 اگست اور 8 اگست 2022 کو اسی پولیس اسٹیشن میں درج 2 مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں ریمارکس دیے کہ اس صوبے کے پولیس اہلکاروں نے معاشرے میں مثبت تصور بنا کر مثالی پولیس کا خطاب اور مقام حاصل کیا ہے، تاہم کسی پولیس افسر کی جانب سے عام شہریوں کے خلاف طاقت کا غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ یا غیر قانونی استعمال نہ صرف محکمہ پولیس کی بدنامی، بلکہ پورے انصاف کے نظام کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا۔

پشار ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ عدالت اپنے طور پر ایس ایچ او کے طرز عمل اور رویے سے متعلق کوئی رائے دیے بغیر چاہتی ہے کہ آئی جی کے پی پولیس اس معاملے کی تحقیقات کسی ایماندار اور غیر جانبدار افسر سے کرائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں