خاتون جج کو دھمکانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عمران خان کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیا جواب

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2022
سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا اپنے الفاظ پر جج زیبا چوہدری سے پچھتاوے کا اظہار کرنے سے شرمندگی نہیں ہوگی— فائل فوٹو: فیس بک
سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا اپنے الفاظ پر جج زیبا چوہدری سے پچھتاوے کا اظہار کرنے سے شرمندگی نہیں ہوگی— فائل فوٹو: فیس بک

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرا دیا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی جانب سے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق بیان پر توہین عدالت کے کیس میں آج عمران خان کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

عمران خان کی جانب سے بدھ کے روز دوبارہ جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ غیر ارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے، بیان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا، اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون مجسٹریٹ، آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد کے خلاف کیس کریں گے، عمران خان

سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ اپنے الفاظ پر جج زیبا چوہدری سے پچھتاوے کا اظہار کرنے سے شرمندگی نہیں ہوگی، عدلیہ کے خلاف توہین آمیز بیان کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب میں کہا ہے کہ تقریر کے دوران لفظ 'شرمناک' توہین کے لیے استعمال نہیں کیا، جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح کرنا مقصد نہیں تھا۔

عمران خان نے عدالت عالیہ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان میں کہا کہ میرے الفاظ سے جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح ہوئے، اس پر گہرا افسوس ہے، غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں سابق وزیر اعظم نے غیر مشروط معافی نہیں مانگی، عمران خان نے توہین عدالت کیس کے جواب میں افسوس کا اظہار کیا ہے۔

عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ انصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ بشمول ماتحت عدلیہ کو مضبوط کرنے پر یقین رکھتا ہوں، خاتون ججز کی اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کا حمایتی ہوں، مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہائی کورٹ میں شہباز گل کیس کی اپیل زیر التوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے لگا کہ ماتحت عدالت نے جسمانی ریمانڈ دے دیا تو بات وہاں ختم ہوگئی، شہباز گل پر ٹارچر کی خبر تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آئی، جو ویڈیوز آئیں ان میں شہباز گل کو سانس نہیں آرہی تھی اور وہ آکسیجن ماسک کے لیے منتیں کر رہے تھے، شہباز گل کی اس حالت نے ہر دل اور دماغ کو متاثر کیا ہوگا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ طلال چوہدی کیس الگ نوعیت کا تھا، طلال چوہدری نے بیان پر کبھی کوئی افسوس ظاہر نہیں کیا تھا، عدالت نے مجھے ضمنی جواب کی مہلت دی اس پر بھی تنقید ہوئی، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی تاک میں رہنے والوں نے شدید تنقید کی۔

مزید پڑھیں: پولیس، مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کےخلاف مقدمہ درج، دہشت گردی کی دفعہ شامل

عمران خان نے جواب میں مزید کہا کہ عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا، کبھی ایسا بیان دیا نہ مستقبل میں دوں گا جو کسی عدالتی زیر التوا مقدمے پر اثر انداز ہو۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں عدلیہ مخالف بدنیتی پر مبنی مہم چلانے، عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

انہوں نے اپنے جواب میں عدالت عالیہ سے وضاحت کو منظور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔

واضح رہے کہ عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دینے والی ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے متعلق بیان پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان کو 7 روز میں دوبارہ تحریری جواب جمع کروانے کا حکم

بعد ازاں، جاری شوکاز نوٹس میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 31 اگست کو پیش ہو کر بتائیں کہ آپ کے خلاف توہین عدالت کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

31 اگست کو چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔

گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا تھا کہ جو جواب پڑھا مجھے اس کی توقع نہیں تھی، مجھے توقع تھی کہا جائے گا غلطی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: دہشت گردی کا مقدمہ، عمران خان کی 3 روزہ حفاظتی ضمانت منظور

بعد ازاں عدالت کی جانب سے عمران خان کے وکلا کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی تھی۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی اور دفعہ 144 کے مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردی کا مقدمہ: عمران خان کا ضمانت کیلئے کل عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں