گلگت بلتستان: عدالتی فیصلے کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے 2 شہریوں کا ڈی پورٹ ہونے سے انکار

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2022
ایس ایچ او کے مطابق دوران تفتیش دونوں نے بھارتی شہری ہونے کا اعتراف کیا تھا — فوٹو: امتیاز علی تاج
ایس ایچ او کے مطابق دوران تفتیش دونوں نے بھارتی شہری ہونے کا اعتراف کیا تھا — فوٹو: امتیاز علی تاج

گلگت بلتستان میں پکڑے جانے مقبوضہ کشمیر ضلع باندی پورہ تحصیل گریز سے تعلق رکھنے والے 2 باشندوں نے جان کو خطرات لاحق ہونے کے خدشات پر عدالتی فیصلے کے باوجود ڈی پورٹ ہونے سے انکار کردیا۔

12 جون 2020 کو لائن آف کنٹرول کو غیر قانونی طور پر پار کر کے گلگت پہنچنے والے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے 2 مشکوک مسلمان طلبہ نور محمد ولی اور فیروز احمد کو گلگت ایئرپورٹ تھانے نے گرفتار کیا تھا۔

تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی طرف سے عدالت میں دیے گئے بیان کے مطابق مشکوک طلبہ سے تلاشی کے دوران بھارتی کرنسی، موبائل فون اور اسٹوڈنٹ کارڈز برآمد ہوئے تھے، دوران تفتیش دونوں نے بھارتی شہری ہونے کا اعتراف کیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ غلطی سے سرحد پار کر کے پاکستان آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: جھاڑکھنڈ میں دوستی سے انکار پر جلائی گئی لڑکی دم توڑ گئی

عدالتی دستاویزات کے مطابق ایس ایچ او کے بیان پر دونوں کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کی گئی، عدالت نے ملزمان کی کیس کی پیروی کے لیے ظفر اقبال ایڈووکیٹ کو مقرر کیا تھا جبکہ سرکار کی طرف سے ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر بشارت علی پیش ہوئے تھے۔

عدالتی فیصلے میں دونوں بھارتی باشندوں کو 20 اپریل 2022 کو فارن ایکٹ کے تحت سزا سنا دی گئی تھی جس میں طویل قید کی سزا قرار دے کر انہیں فوری طور پر واپس بھارت ڈی پورٹ کرنے کے احکامات دیے گئے تھے۔

عدالت نے حکم دیا تھا کہ گلگت بلتستان کے سیکریٹری داخلہ ان کو واہگہ بارڈر کے ذریعے ڈی پورٹ کرنے کے انتظامات کریں۔

غیر ملکی ملزمان کے وکیل ظفر اقبال نے ڈان نیوز کو بتایا کہ زیر حراست دونوں بھارتی باشندوں کی جاسوسی یا دہشت گردی کی کوشش یا ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے، جس پر صرف ان کے خلاف غیر قانونی طور سرحد پار کرنے کے الزامات پر کارروائی ہوئی۔

ظفر اقبال کے مطابق سیشن کورٹ کے احکامات کے مطابق ڈی پورٹ کرنے کی تیاری کرلی گئی تو دونوں غیر ملکیوں نے بھارت میں جان کو خطرات لاحق ہونے کی بنیاد پر واپس جانے سے انکار کردیا اور بتایا کہ وہ کشمیری مہاجر کے طور پر پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں تاکہ پُرسکون اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔

مزید پڑھیں: بھارت میں کلاس روم میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج میں شدت

ملزمان کے وکیل ظفر اقبال نے بتایا کہ دونوں غیر ملکی باشندوں کے اس مؤقف پر ان کی مدد کے لیے متعدد اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی جی جیل خانہ جات ضمیر عباس نے ایک ہفتہ قبل دونوں بھارتی باشندوں کو کوٹ لکھپت جیل بھجوانے کا مراسلہ لکھا، اس حوالے سے کارروائی جاری ہے۔

آئی جی جیل خانہ جات نے ستمبر 2022 کو لکھے گئے اپنے مراسلے میں سزا یافتہ دونوں بھارتی باشندوں کو سینٹرل جیل گلگت سے کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کرنے کے لیے ملزمان کا ریکارڈ اور فول پروف انتظامات کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں اور ضلعی انتظامیہ کو بھی اعتماد میں لینے کا کہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ایڈووکیٹ ظفر اقبال نے کہا کہ سزا یافتہ دونوں بھارتی باشندے گلگت بلتستان میں بولی جانے والی شینا زبان بولتے ہیں، انہوں نے معاشی کسمپرسی کی وجہ سے بھارت چھوڑنے کو اہم وجہ قرار دیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان میں روزگار حاصل کر کے باوقار زندگی گزارنے کی حسرت رکھتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں