توہین عدالت کیس: عمران خان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2022
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان کی عدالت آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
عمران خان کی عدالت آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے سماعت کے بعد متفقہ فیصلہ سنایا۔

مزید پڑھیں: خاتون جج کو دھمکانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عمران خان کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیا جواب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ ‘وکیل صفائی، اٹارنی جنرل اور عدالتی معاونین کو سنا اور وکیل نے دوبارہ جمع کرائے گئے جواب سے آگاہ کیا، جو توہین عدالت کی کارروائی شروع ہونے کا باعث بننے والی تقریر کی وضاحت تھی’۔

حکم نامے میں نہال ہاشمی اور فردوس عاشق اعوان سمیت مختلف مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ‘جواب کو اطمینان بخش نہیں پایا گیا، ہم اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ جواب میں مبینہ طور پر ان کے خلاف توہین سے متعلق جاری شوکاز نوٹس پر صفائی پیش کی’۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے فیصلے میں کہا کہ ‘فرد جرم عائد کرنے کے لیے سماعت 22 ستمبر تک ملتی کردی جاتی اور سماعت مقررہ تاریخ پر دوپہر 2:30 بجے ہوگی’۔

اس سے قبل عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کرمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے، جرم بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے جبکہ دو عدالتی معاونین نے بھی کیس ختم کرنے کی استدعا کی۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون مجسٹریٹ، آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد کے خلاف کیس کریں گے، عمران خان

عمران خان کے خلاف خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں اسلام آبادہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کی۔

عمران خان کی عدالت آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور سماعت مکمل ہونے تک عدالت میں موجود رہے۔

عمران خان کے وکیل حامد خان کے دلائل

سماعت کے دوران روسٹرم پر زیادہ وکلا آنے پر چیف جسٹس نے دیگر وکلا کو بیٹھنے کا کہہ دیا، جس کے بعد عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل شروع کردیے۔

وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ عدالت میں گزشتہ روز ضمنی جواب جمع کرایا گیا تھا، جواب گزشتہ سماعت پر عدالت کی ابزرویشنز کی بنیاد پر تشکیل دیا ہے، ہم نے جواب کے ساتھ سپریم کورٹ کے دو فیصلے لگائے ہیں اور ہم چاہتے ہیں اب توہین عدالت کیس بند کردیا جائے۔

اپنے دلائل کے دوران وکیل حامد خان نے دانیال عزیز کیس کا ذکر بھی کیا، انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے سپریم کورٹ کے توہین عدالت کیسز کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا، گزشتہ سماعت کے حکم نامے میں عدالت نے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات کا حوالہ دیا۔

حامد خان نے کہا کہ عمران خان کا کیس دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات سے مختلف ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل، سول اور کریمنل تین طرح کی توہین عدالت ہوتی ہیں، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمے میں کریمنل توہین نہیں تھی، انہوں نے عدالت کے کردار پر بات کی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں، عدالت

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ عمران خان نے کریمنل توہین کی ہے، زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، ہم نے آپ کا جواب پڑھ لیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں، سپریم کورٹ کے تین فیصلے ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ فردوس عاشق اعوان کیس میں تین قسم کی توہین عدالت کا ذکر ہے، ہم نے عدالت کو اسکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی، عدالت پر تنقید کریں، ہم اسکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کریں گے، کرمنل توہین عدالت بہت سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ

چیف جسٹس نے کہا کہ کریمنل توہین عدالت میں دانست غیرمتعلقہ ہو جاتی ہے، اس سے نہیں دیکھا جاتا، کرمنل توہین عدالت میں یہ نہیں کہا جاتا کہ بات کرنے کا مقصد کیا تھا، ہم نے آپ کو سمجھایا تھا کہ یہ کرمنل توہین عدالت ہے۔

'اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، ماتحت عدلیہ ریڈ لائن ہے'

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا جواب حتمی تھا اور ہم نے تفصیلی پڑھا، آپ کو ہدایت کی تھی کہ سوچ سمجھ کر اپنا جواب داخل کریں۔

اس دوران عدالت کے کہنے پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے توہین عدالت کیس کا ایک فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ معافی تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

انہوں نے یہاں عمران خان کے وکیل حامد خان کو توہین عدالت کی سیکشن 9 پڑھنے کی ہدایت دی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کرمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے، اگر کسی جج کے فیصلے سے متاثر ہوں تو اس کا طریقہ کار قانون میں موجود ہے، توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے۔

'اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی'

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سوسائٹی اتنی پولورائز ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں، اگر یہی کام وہ اس جج کے ساتھ کریں تو پھر کیا ہو گا؟ کیا یہ لب و لہجہ کسی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اس عدالت کی اولین ترجیح ہے، ہم نے وکلا تحریک سے کچھ بھی نہیں سیکھا، کیا آپ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے جواز نہیں وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس، 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوئی سابق وزیراعظم قانون کو نظرانداز کر سکتا ہے؟ جرم بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے، ہم نے پچھلی بار سمجھایا تھا لیکن آپ کو احساس نہیں ہوا، کیا سابق وزیراعظم یہ جواز پیش کر سکتا ہے کہ اس سے قانون کا علم نہیں تھا؟

'جواب میں شہباز گل پر تشدد کو 'مبینہ' نہیں لکھا'

اس دوران جسٹس بابر ستار نے حامد خان کو شوکاز نوٹس کا پیراگراف 5 پڑھنے کی ہدایت کی۔

جسٹس بابر ستار نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے کہا کریمنل توہین کا ذکر نہیں، شوکاز میں صاف لکھا ہے عمران خان نے کریمنل اور جوڈیشل توہین کی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو 'مبینہ' نہیں لکھا، معاملہ ابھی عدالت میں ہے، آپ اپنے جوابات میں توہین عدالت کو جسٹیفائی کر رہے ہیں، جس پر حامد خان نے کہا کہ جسٹیفائی اور وضاحت دینے میں فرق ہوتا ہے، میں وضاحت دے رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہی الفاظ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججوں کے لیے ہوتا تو یہی جواب دیتے، آپ جسٹیفائی کر رہے ہیں کہ ٹارچر ہوا ہے، یہ بتائیں فیصلے جلسوں میں ہوں گے یا عدالتوں میں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ 70 برسوں میں جو ہوا اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت بہت ہی محتاط رہتی ہے۔

حامد خان نے کہا کہ ہمارے لیے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے جج قابل عزت ہے، مجھے نہیں معلوم کہ تب الزام کیا ہوتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے زیادہ اہم ہیں، حامد خان نے کہا کہ کئی بار بات اتنی سنجیدہ نہیں ہوتی جتنی سمجھ لی جاتی ہے، عمران خان نے شاید ایکشن کے لفظ کو درست طور پر ادا نہیں کیا۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا توہین عدالت ایکٹ کے تحت لیگل ایکشن اس طرح عوام میں کہا جا سکتا ہے، جس پر حامد خان نے کہا کہ لیگل کارروائی تو ہر ایک کا حق ہوتا ہے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ قانون فورم بتاتا ہے کہ کہاں ایکشن لیا جا سکتا ہے، نہ کہ جلسوں میں۔

حامد خان نے کہا کہ ایکشن کا کہنا لازمی طور پر کسی کو دھمکانے کی کوشش نہیں ہوتی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کسی جج کے کوئی جذبات نہیں ہوتے۔

'آپ اپنا جواب جتنا پڑھتے جائیں گے اتنا مسئلہ ہوگا'

حامد خان نے کہا کہ ہم عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم وہ ویڈیو دوبارہ چلا دیتے ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پبلک میں جو الزام لگایا گیا یا جو الفاظ کہے گئے کیا ان کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟

دوران سماعت عمران خان نے شعیب شاہین کو لقمہ دیا کہ میں نے جلسے میں کہا تھا، شعیب شاہین عمران خان کا پیغام لے کر حامد خان کے پاس پہنچ گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان نے لکھا کہ اگر جج کے جذبات مجروح ہوئے، جج کے جذبات نہیں ہوتے، آپ اپنا جواب جتنا پڑھتے جائیں گے اتنا مسئلہ ہو گا، خاتون جج لاہور جا رہی ہوں گی، موٹروے پر کھڑے ہوئے کوئی واقعہ ہو سکتا ہے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو؟ عدالت آپ کو سمجھا رہی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک رہنما ایک جج کے خلاف قانونی کارروائی کی بات عوامی جلسے میں کرسکتا ہے؟ حامد خان نے کہا کہ قانونی کارروائی کرنا تو ہر کسی کا حق ہے۔

اس دوران عمران خان نے ایک بار پھر شعیب شاہین سے مکالمہ کیا کہ روسڑم پر جانا چاہتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس، مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کےخلاف مقدمہ درج، دہشت گردی کی دفعہ شامل

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ معاملہ خاتون جج کے ساتھ ہوا، پبلک میں ان کے فیصلے کے خلاف ایکشن لینے کا کہا گیا؟

'لیڈر کی گفتگو میں ذمہ داری ہوتی ہے، فتح مکہ سے سیکھنا چاہیے'

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ مدینہ منورہ میں کیا ہوا تھا؟ وہ واقعہ اس وجہ سے ہوا کیونکہ اس کے لیے اشتعال دلایا گیا تھا، بات کو سمجھیں آپ کو یہی بات بار بار سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لیڈر کی گفتگو میں بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، ایک ایک لفظ اہم ہوتا ہے، ہمیں فتح مکہ سے بھی سیکھنا چاہیے، ایک ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جو ٹون استعمال ہوئی وہ درست نہیں تھی۔

جسٹس بابر ستار کے ریمارکس پر عمران خان نفی میں سر ہلاتے رہے، عمران خان نے ایک دفعہ شعیب شاہین کو روسٹرم پر جانے کا کہا، عمران خان کے کہنے پر شعیب شاہین دوبارہ روسٹرم پر چلے گئے، شعیب شاہین نے شہباز گل کیس پر بولنے کی کوشش کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ شہباز گل کیس کی بات نہ کرے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ شہباز گل کی کسی میڈیکل رپورٹ میں ان پر تشدد ثابت نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے جواب میں تشدد کو مبینہ ہی لکھ دیتے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ شہباز گل کے لیے 6 میڈیکل بورڈز بنائے گئے، 14 ڈاکٹروں نے انہیں چیک کیا، کسی نے نہیں کہا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا، کیا آپ نے یہ بات عمران خان کو نہیں بتائی۔

شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے میڈیکل افسر نے تصدیق کی تھی کہ جسم پر نشانات تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے لیے چیزوں کو مشکل نہ بنائیں، آپ کی پوری لیگل ٹیم سماعت کے موقع پر موجود تھی، اب آپ کا تاثر غالب آئے گا یا جوڈیشل آرڈر؟

حامد خان نے کہا کہ میں اس طرف نہیں جا رہا بلکہ کیس ختم کرنے کی بات کر رہا ہوں، عدالت کہتی ہے کہ ججوں کے جذبات نہیں ہوتے لیکن ہم پھر بھی انسان ہیں، عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا کیونکہ دھمکی دینا ان کا مقصد نہیں تھا، عمران خان خواتین کے حقوق کے لیے ہمیشہ کھڑے ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک خاتون کی بات نہیں، ماتحت عدالت کی ایک جج کی بات ہے، حامد خان نے کہا کہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ایک خاتون جج سے متعلق یہ بات کی گئی جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کون یہ تاثر دیتا ہے؟ میں آپ کی بات کو سمجھ نہیں سکا۔

حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آج تک کسی لیڈر نے اپنے فالوور کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے روکا ہے؟ اس سوشل میڈیا کا اصل شکار عدالتیں ہوتی ہیں لیکن ہمیں فرق نہیں پڑتا۔

اپنے دلائل کے دوران حامد خان نے فردوس عاشق اعوان کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس پر نہ جائیے گا یہ فیصلہ آپ کے خلاف جائے گا، فردوس عاشق اعوان کیس کا فیصلہ تب دیا گیا جب وہ وزیراعظم کی معاون خصوصی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں لکھا تھا کہ فردوس عاشق اعوان نے توہین عدالت کی لیکن انہیں علم نہیں تھا، اب اس فیصلے کے بعد آپ یہ دلیل تو نہیں دے سکتے کہ آپ کو پتا نہیں تھا۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ جواب میں یہ بھی لکھا گیا کہ عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر کی جائے گی، کیا عمران خان اپنے بیان سے اس عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے تھے؟

'نہال ہاشمی کیس کی سنگینی کم تھی لیکن سپریم کورٹ نے انہیں سزا دی'

چیف جسٹس نے کہا کہ جب عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر ہوگی تو کیا ایسا کہنا درست تھا، کیا ایسا کہنا اسلام آباد ہائی کورٹ پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں تھی؟ یا تو ہم اس نظام پر اعتماد کریں یا سب چیزیں جلسے میں طے کریں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ہمیں عدالت یا ججوں کو اسکینڈلائز کرنے سے فرق نہیں پڑتا، نہال ہاشمی کیس کی سنگینی کم تھی لیکن سپریم کورٹ نے پھر بھی انہیں سزا دی، ہم توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں تو روزانہ وہی کرتے رہیں، ہم نہیں کریں گے، یہاں کریمنل توہین عدالت ہے جس پر دنیا بھر میں نوٹس لیا جاتا ہے ہم بھی لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس توہین عدالت سے عوام کا عدالتوں سے اعتماد اٹھنے کا خدشہ ہوتا ہے، جسٹس بابر ستار نے فواد چوہدری کے خلاف ایک درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کی، وہ نہال ہاشمی کیس سے زیادہ سنگین توہین عدالت ہے لیکن ہم نوٹس نہیں لیں گے، آپ کو معلوم ہے وہ کیا کہتے ہیں؟ کیا کیا چیزیں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ جی مجھے اس حوالے سے معلوم ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ہائی کورٹ کے باہر لوگ لے آئیں گے، وہ دھمکی دے رہے ہیں، آپ کو بار بار سمجھایا تھا کہ سوچ سمجھ کر جواب جمع کرائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے جواب میں بار بار افسوس کا اظہار کیا ہے، ہم نے عدالتی ہدایت پر افسوس کا لفظ استعمال کیا ہے، ہماری گزارش ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے، عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ عمران خان آئندہ مزید محتاط رہیں گے۔

اس کے ساتھ ہی عمران خان کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل شروع کر دیے۔

عمران خان نے دوبارہ خاتون جج کا حوالہ دیا، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرے پاس عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ ہے، اُس تقریر کے بعد ہونے والی تقریر کی ریکارڈنگ بھی میرے پاس ہے، میں سی ڈی اور ٹرانسکرپٹ ریکارڈ پر پیش کر دوں گا، عمران خان نے دوبارہ انہی خاتون جج کا حوالہ دیا۔

اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ یہ چاہتے ہیں سپریم کورٹ نے ایک بار معاف کر دیا تھا تو بار بار معاف کریں، عمران خان کے جواب کے ساتھ کوئی بیان حلفی نہیں ہے، عمران خان کو شوکاز نوٹس کا جواب بیان حلفی کے ساتھ دینا چاہیے تھا۔

اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ عمران خان نے شرمناک کا لفظ استعمال کیا تو سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، 8 سال پہلے بھی عمران خان نے سپریم کورٹ سے معافی مانگی تھی، اس وقت بھی میں نے عمران خان کا یہی بیان سنا تھا، عمران خان اگر توہین آمیز الفاظ نہ کہتے تو آج یہاں کھڑے نہ ہوتے۔

عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس ختم کیا جائے، منیر اے ملک

اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف کے بعد عدالتی معاون ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے دلائل شروع کیے اور کہا کہ شوکاز نوٹس میں تین قسم کے الزامات لگائے گئے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ جب گفتگو کی گئی تو معاملے کا جج نے فیصلہ کردیا تھا لیکن ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا، توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کا قانون استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون مسلسل نمُو پذیر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائی کورٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پر تقریر کا اثر پڑا۔

عدالتی معاون نے کہا کہ الفاظ افسوس ناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے، ایک معافی پر اور دوسرا کنڈکٹ پر یہ کارروائی ختم ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کے لیے احترام کا اظہار کیا گیا، اسلم بیگ نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے معافی بھی نہیں مانگی تھی۔

اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اسلم بیگ کون تھے اور کہا کہ چلیں آگے چلیں، جس کے بعد منیراے ملک نے کہا کہ میں عدالتی معاون ہوں، کسی اور کا مؤقف پیش نہیں کر رہا۔

منیر اے ملک نے عمران خان کے جواب پر توہین عدالت کیس ختم کرنے کی استدعا کر دی اور اس کے ساتھ ہی ان کے دلائل مکمل ہوئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا ماتحت عدلیہ کا بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی طرح احترام کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ماتحت عدلیہ ہماری ریڈلائن ہے، جلسے میں خاتون جج کا نام لے کر بہت کچھ کہا گیا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا جواب توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ عدالت کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کارروائی کو ختم کرنا چاہیے۔

عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کرکے عمران خان کو معاف کرے، مخدوم علی خان

عدالت کے دوسرے معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مفاد عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے تو اظہار رائے کی آزادی میں بھی ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ امریکا میں صدر نے عدالتی فیصلے کو بدترین کہا تھا تو وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا اور دوسرا راستہ نکالا وہ نکالتے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ امریکا میں ہی مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاونٹ معطل ہوا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ پیروکاروں کو اشتعال دلانے پر معطل ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ایک سیاسی لیڈر کے لیےالفاظ کا چناؤ کتنا اہم ہے۔

عدالتی معاون نے اس موقع پر کہا کہ ایک لیڈر کی جلسے میں کہی گئی بات عدالتی کارروائی پر اثرانداز نہیں ہو سکتی، خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی، اسلام آباد میں سیاسی معاملات زیادہ ہیں۔

مخدوم علی خان نے بھی منیر اے ملک کی طرح عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کردی اور کہا کہ عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کر کے عمران خان کو معاف کردے۔

عمران خان کو اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس ہی نہیں، چیف جسٹس

عدالتی معاون کے رائے پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس کی ہم امید کر رہے تھے عمران خان کا جواب وہ نہیں ہے، سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں ریمارکس ہوتے تو جواب ایسا نہ ہوتا۔

بینچ میں شامل جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر عمران خان کو ایک موقع دیا تھا، عدالت کو عمران خان کے کنڈکٹ میں وہ بات نظر نہیں آرہی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سوشل میڈیا سے گھبرانا نہیں چاہیے وہ قابل اعتبار ہی نہیں ہے۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ چند کیسز میں سے ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ واحد کیس ہے، ایک جماعت کے لیڈر نے ماتحت عدلیہ کے جج کے بارے میں کہے الفاظ پر ہائی کورٹ کا پانچ رکنی بینچ کیس سن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت کی کارروائی کا پیغام جا چکا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جواب سے لگتا ہے کہ عمران خان کو اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس ہی نہیں۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت عمران خان کو مزید موقع دے سکتی ہے، عمران خان اپنے مفصل جواب میں افسوس اور معذرت کے الفاظ استعمال کریں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا کسی کی انا ماتحت عدلیہ کے وقار سے زیادہ اہم ہے، عمران خان کے جواب میں غیرمشروط معافی کی بات بھی نہیں کی گئی۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اس کیس میں پچھتاوے کا اظہار کیا جا چکا ہے اور عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کریں۔

عمران خان نے غیر مشروط معافی نہیں مانگی، عدالتی معاون اختر حسین

عدالت کے تیسرے معاون پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین کن دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو شوکاز نوٹس درست طور پر جاری کیا گیا۔

اختر حسین نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے غیر مشروط طور پر معافی نہیں مانگی گئی، اگر غیر مشروط معافی مانگی جاتی تو میں بھی کہتا ختم کر دیں۔

عدالت نے اس کے ساتھ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھانے یا نہ بڑھانے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کیا اور بعد میں کہا کہ توہین عدالت پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کردی جائے گی۔

مجھے بولنے کا موقع نہیں دیا گیا، سابق وزیراعظم

عمران خان نے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا تھا، ہر بات کا تناظر ہوتا ہے کہ کس تناظر میں بات کی گئی۔

سابق وزیراعظم نےکہا کہ مجھے بولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

جیل میں جاکر میں اور خطرناک ہوجاؤں گا، عمران خان

قبل ازیں عمران خان نے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اتنی سیکیورٹی پتا نہیں کیوں ہے، میں نے زندگی میں اتنی پولیس نہیں دیکھی، ان کو خوف کس بات کا ہے، ایسا لگ رہا تھا جیسے کلبھوشن یادیو آرہا ہے۔

ایک صحافی کے سوال پر کہ اس طرح کی خبریں آرہی ہیں کہ حکومت آپ کو جیل میں ڈالنے سے متعلق منصوبہ بندی کر رہی ہے، کیا اس لیے اتنے سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں جس پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ جیل میں جا کر میں اور خطرناک ہوجاؤں گا۔

عمران خان نے کہا کہ سماعت کے بعد مزید گفتگو کروں گا، کہیں ایسا نہ ہو کوئی غلط ٹکرز چل جائے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی جانب سے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر توہین عدالت کے کیس میں 8 ستمبر تک عمران خان کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان کو 7 روز میں دوبارہ تحریری جواب جمع کروانے کا حکم

31 اگست کو دیے گئے عدالت کے حکم کے مطابق سابق وزیر اعظم نے گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ نیا تحریری جواب جمع کرا دیا تھا۔

عمران خان کی جانب سے 7 ستمبر کو دوبارہ جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ غیر ارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے، بیان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا، اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔

سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ اپنے الفاظ پر جج زیبا چوہدری سے پچھتاوے کا اظہار کرنے سے شرمندگی نہیں ہوگی، عدلیہ کے خلاف توہین آمیز بیان کا سوچ بھی نہیں سکتا، تقریر کے دوران لفظ 'شرمناک' توہین کے لیے استعمال نہیں کیا، میرے الفاظ سے جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح ہوئے، اس پر گہرا افسوس ہے، غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔

انہوں نے اپنے جواب میں عدالت عالیہ سے وضاحت کو منظور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں سابق وزیر اعظم نے غیر مشروط معافی نہیں مانگی، عمران خان نے توہین عدالت کیس کے جواب میں افسوس کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: خاتون جج کو دھمکانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عمران خان کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیا جواب

31 اگست کو چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔

گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا تھا کہ جو جواب پڑھا مجھے اس کی توقع نہیں تھی، مجھے توقع تھی کہا جائے گا غلطی ہوئی ہے۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں