اداروں کےخلاف متنازع تقاریر پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2022
وکلا، سول سروسز اور سول سوسائٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے —فوٹو: اے ایف پی
وکلا، سول سروسز اور سول سوسائٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے —فوٹو: اے ایف پی

قومی اداروں کی توہین اور ہتک عزت سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی جس میں درخواست گزار نے اعلیٰ عدلیہ سے استدعا کی ہے کہ قومی اداروں کی ہتک عزت روکنے کے لیے حکومت کو مخصوص ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کی ہدایت کی جائے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وکلا کے ایک گروپ اور سول سروسز اور سول سوسائٹی کے ارکان نے اپنے وکیل حیدر وحید کے ذریعے درخواست دائر کی، مشترکہ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ تقاریر پر پابندی لگانے کے لیے وفاقی حکومت کو موجودہ قوانین پر نظرثانی کا حکم دیا جائے۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ ادارہ جاتی ہتک عزت کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں اور آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق قانون سازی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: عمران خان اہل اور جہانگیر ترین نااہل قرار

درخواست گزاروں میں سابق پولیس چیف سید ابن حسین، جوائنٹ سیکریٹری کیبنٹ (ریٹائرڈ) حسن محمود، پنجاب انٹرنیشنل ہیومن رائٹس موومنٹ کے رہنما راجا شیر بلال، پرنسپل ونگ کالج چکوال پروفیسر ابرار احمد اور وکلا فیصل اور ایم آصف شامل ہیں۔

یاد رہے کہ قومی اداروں کی توہین کے حوالے سے یہ دوسری درخواست دائر کی گئی ہے، اس سے قبل ایڈووکیٹ قوسین فیصل کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مسلح افواج، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسے قومی اداروں کو نشانہ بناکر مبینہ طور پر نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے۔

حالیہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ جواب دہندگان کو فرائض کی انجام دہی کے لیے آرٹیکل 19پر اس کی روح کے مطابق بلاامتیاز عمل درآمد کا حکم دیا جائے، جواب دہندگان میں وزارت اطلاعات، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور الیکشن کمیشن آف پاکستان شامل ہیں۔

ہر قسم کے میڈیا کے لیے متفقہ ریگولیٹر کیلئے قانون سازی

درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ غیر مساوی اور خلاف ضابطہ متنازع تقاریر کی براڈ کاسٹ، ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا پر آرٹیکل 19 اور 25 کی خلاف ورزی قرار دے، درخواست میں مزید کہا گیا کہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ تمام میڈیا اداروں کو یکساں ضوابط اور قوانین لاگو کرنے کے لیے متعلقہ حکام سے مشاورت کرے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا عمران خان کو گرفتار نہ کرنے، احتجاج کیلئے جگہ فراہم کرنے کا حکم

درخواست میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں متنازع تقاریر کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مناسب حل نہیں نکالا گیا، درخواست میں کہا گیا کہ متنازع تقاریر میں ریاستی اداروں یا ان کی قیادت کو بغیر کسی ثبوت کے بدنام کیا جاتا ہے اور غلط معلومات کی بنیاد پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ریاستی ادارے ہتک عزت پر مقدمہ دائر کرنے کے لیے ضروری وسائل کا استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اسے برقرار رکھنے میں ممکنہ طور پر مسائل پیش آئیں گے اور ایسے اداروں کے لیے نقصانات کا دعویٰ کرنا مشکل ہوگا۔

اسی طرح تعزیراتی قوانین کا ایک محدود دائرہ کار ہے اور ان قوانین کی محدود تشریح کی گئی ہے، درخواست میں مزید کہا گیا کہ پہلی بار قانونی خلاف ورزی کی صورت میں مجرمانہ سزاؤں کے نتیجے میں غیر متناسب سزا ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس

درخواست میں کہا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ یا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی متاثرہ شخص یا ادارے پر مشکلات پیدا کرسکتی ہے، کیونکہ اداروں کو بدنام کرنے کی صورت میں یہ ادارے اپنے اوپر عائد الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لیے قیمتی وسائل، وقت کو بروئے کار لاکر اپنا دفاع کرتے ہیں تاکہ مجرم کو غلط ثابت کیا جاسکے۔

پیٹیشن میں مزید کہا گیا کہ اگر متازع تقاریر پر پابندی کے حوالے سے قوانین ہوتے تو قومی ادارے اپنا قیمتی وقت اور وسائل اپنا دفاع کرنے کے بجائے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بہتر طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔

متنازع تقاریر اور قومی اداروں پر پابندی کے حل کے لیے مناسب تدبیر نہ ہونے کی صورت میں ساسی بیانات اور میڈیا پر تبصرے کیےجاتے ہیں جس کی وجہ سے ریاستی اداروں اور عدلیہ کو بدنام کیا جاتا ہے، اکثر اوقات میڈیا میں ان تبصروں کا نتیجہ میڈیا ٹرائل کی صورت میں نکلتا ہے جس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کی تقریر غیر ضروری طور پر متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، شہباز گل

درخواست میں کسی مخصوص فرد کا نام نہ لیتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ قانون شکنی کرنے والے افراد کے بیانات کتنے ہی غیر مناسب، غیر ذمہ دارانہ اور ناگوار کیوں نہ ہوں، وہ قانون کی گرفت میں نہیں آتے، درخواست گزار نے صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا کہ ریاستی اداروں اور تنظیموں کی ساکھ، وقار، عزت اور عوامی اعتماد ان کی جائز ضرورت اور مفادات میں شامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں