اسٹیٹ بینک نے مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جو 15 فیصد ہے۔

اسٹیٹ بینک سے جاری اعلامیے کے مطابق زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے اجلاس میں صورت حال کا جائزہ لیا اور پالیسی ریٹ 15 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: مرکزی بینک کا شرح سود 15 فیصد برقرار رکھنے کا اعلان

بیان میں کہا گیا کہ زری کمیٹی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس کے بعد معاشی سرگرمی میں سست روی آتی رہی اور عمومی مہنگائی اور جاری کھاتے کے خسارے میں کمی آئی۔

کمیٹی نے کہا کہ حالیہ سیلاب سے معاشی منظرنامہ تبدیل ہوگیا ہے اور اس کے اثرات کا مکمل جائزہ لینے کا عمل جاری ہے، تاہم فی الوقت دستیاب معلومات کے مطابق کمیٹی کا نکتہ نظر تھا کہ موجودہ زری مؤقف سیلاب کے بعد مہنگائی سے نمٹنے اور نمو کو برقرار رکھنے کے درمیان مناسب توازن قائم رکھے ہوئے ہے۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ایک طرف غذائی اشیا کی قیمتوں کو سپلائی کی وجہ سے دھچکا پہنچا جس کے سبب مہنگائی زیادہ بلند اور زیادہ عرصے تک رہ سکتی ہے، جبکہ اس پہلو کو یقینی بنانا ہے کہ یہ اضافی تحریک معیشت میں دیگر اشیا کی قیمتوں تک نہ پھیل جائے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ معیشت میں نمو کے امکانات کمزور ہوئے ہیں، جس سے طلب میں دباؤ کم ہونا چاہیے اور مہنگائی میں کمی آنی چاہیے۔

اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ ان پریشان کن حالات کی روشنی میں زری پالیسی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ زری پالیسی اس مرحلے پر تبدیل نہ کی جائے۔

شرح نمو 2 فیصد رہنے کا امکان

اسٹیٹ بینک نے بیان میں کہا کہ ‘سُست معاشی سرگرمیوں کے باعث نجی شعبے کے قرضوں میں 0.7 ارب روپے کی خالص واپسی دیکھی گئی جبکہ گزشتہ برس کے اسی عرصے میں 62.6 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا’۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ‘زری پالیسی کمیٹی نے سیلاب کے بعد کے معاشی منظرنامے پر بحث کی اور حکومت کی جانب سے سیلاب کے نقصانات کا جو جائزہ لیا جارہا ہے اس کی تکمیل کے بعد بہتر قیاس کے ساتھ پیش گوئی کی جاسکے گی’۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک نے شرح سود 125 بیسس پوائنٹس اضافہ کرکے 15 فیصد کردی

انہوں نے کہا کہ ‘اس وقت دستیاب معلومات کے مطابق مالی سال 2023 میں جی ڈی پی نمو گر کر لگ بھگ 2 فیصد ہوجائے گی جبکہ سیلاب سے پہلے 3 سے 4 فیصد کی پیش گوئی کی گئی تھی، اس دوران مالی سال 2023 میں بلند غذائی قیمتیں اوسط عمومی مہنگائی کو سیلاب سے قبل کی پیش گوئی 18سے 20 فیصد سے کسی حد تک بڑھا سکتی ہیں’۔

اسٹیٹ بینک نے بیان میں کہا کہ ‘ا س دوران مالی سال 2023 میں بلند غذائی قیمتیں اوسط عمومی مہنگائی سیلاب سے قبل کی پیش گوئی 18-20 فیصد سے کسی حد تک بڑھا سکتی ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے پر اثرات کم پڑنے کا امکان ہے اور غذائی اشیا اور کپاس کی بلند درآمدات اور کم ٹیکسٹائل برآمدات کے دباؤ کی تلافی زیادہ تر ملکی طلب میں کمی اور اجناس کی کم عالمی قیمتوں سے ہوسکتی ہے اور نتیجے کے طور پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بگاڑ کے قابو میں رہنے کی توقع ہے تاہم یہ بگاڑ پچھلی پیش گوئی یعنی جی ڈی پی کے 3 فیصد کے آس پاس رہے گا’۔

یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک نے 22 اگست کو بھی شرح سود 15 فیصد برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

ایم پی سی نے اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا تھا کہ توقع کے مطابق مہنگائی، طلب میں اعتدال اور بیرونی پوزیشن میں بہتری کی وجہ سے پالیسی ریٹ 15 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ اوورہیٹنگ معیشت کو ٹھنڈا کرنے اور جاری کھاتے کے خسارے کو قابو کرنے کے لیے پالیسی ریٹ میں گزشتہ ستمبر سے اب تک مجموعی طور پر 800 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے۔

اس سے قبل 7 جولائی کو اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید 125 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے 13.75 سے بڑھا کر 15 فیصد کردی تھی۔

مزید پڑھیں: مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود ڈیڑھ فیصد اضافے کے بعد 13.75 فیصد ہوگئی

قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے، کھانے پینے کی اشیا بہت مہنگی ہوگئی ہیں، پھر حکومت نے ابھی مشکل فیصلہ کیا ہے جو صحیح فیصلہ تھا کہ بجلی اور پیٹرول کی سبسڈی ختم کردی جائے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے عام آدمی پر بہت دباؤ آرہا ہے، اسٹیٹ بینک اور زری پالیسی کمیٹی اس چیز پر بہت زیادہ زور دے رہی ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنا ہے کیونکہ یہ ہمارے عام آدمی کے لیے بہت مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کنٹرول کرنا اب ہمارا سب سے اہم مقصد ہے تاکہ ہمارے عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔

قائم مقام گورنر نے کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ شرح سود 1.25 فیصد بڑھا کر 15 فیصد کردی جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں