اسٹیٹ بینک نے شرح سود 125 بیسس پوائنٹس اضافہ کرکے 15 فیصد کردی

اپ ڈیٹ 07 جولائ 2022
قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مہنگائی کم کرنے پر زور دے رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مہنگائی کم کرنے پر زور دے رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید 125 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے 13.75 سے بڑھا کر 15 فیصد کردی۔

قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے، کھانے پینے کی اشیا بہت مہنگی ہوگئی ہیں، پھر حکومت نے ابھی مشکل فیصلہ کیا ہے جو صحیح فیصلہ تھا کہ بجلی اور پیٹرول کی سبسڈی ختم کردی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: 13 سال کی بُلند ترین مہنگائی، شرح سود میں 125 بیسس پوائنٹس کا اضافہ متوقع ہے، ماہرین

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے عام آدمی پر بہت دباؤ آرہا ہے، اسٹیٹ بینک اور زری پالیسی کمیٹی اس چیز پر بہت زیادہ زور دے رہی ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنا ہے کیونکہ یہ ہمارے عام آدمی کے لیے بہت مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کنٹرول کرنا اب ہمارا سب سے اہم مقصد ہے تاکہ ہمارے عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔

قائم مقام گورنر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ شرح سود 1.25 فیصد بڑھا کر 15 فیصد کردی جائے۔

خیال رہے کہ مرکزی بینک نے رواں برس مئی میں شرح سود میں 150 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا تھا اور شرح سود 13.75 فیصد مقرر کردی تھ اور کہا تھا کہ اس اقدام سے مالی استحکام میں مدد ملے گی۔

اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود میں اضافے کے ساتھ ساتھ ای ایف ایس اور ایل ٹی ایف ایف قرضوں پر بھی سود کی شرح میں اضافہ کیا تھا جبکہ اس شرح کو پالیسی ریٹ سے منسلک کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ خود بخود ایڈجسٹ ہو جائیں گے۔

مزید پڑھیں: مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود ڈیڑھ فیصد اضافے کے بعد 13.75 فیصد ہوگئی

اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ مالی سال 23-2022 میں اقتصادی شرح نمو ساڑھے 3 سے ساڑھے 4 فیصد تک کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔

'دو سال تک 6 فیصد شرح نمو بھی مہنگائی کی ایک وجہ'

قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں ہو رہا ہے، 1970 کے بعد مارکیٹ میں اتنی زیادہ مہنگائی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ کے بعد جب معیشتیں بحال ہونے لگیں تو طلب میں تیزی سے اضافہ ہوا اور شپنگ اور دیگر مد میں لاگت میں اضافہ ہونے لگا۔

ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ خیال تھا کہ قیمتیں بتدریج نیچے آنا شروع ہوں گی لیکن فروری میں روس ۔ یوکرین جنگ کے بعد اشیا کی چیزیں اور بھی اوپر چلی گئیں اور عالمی مسئلہ بھی ہے، جس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے اندرونی سطح پر بھی چند وجوہات ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے، سب سے پہلی یہ ہے کہ مالی سال 2021 اور 2022 میں ہم نے بہت تیزی سے شرح نمو دیکھی جو تقریباً 6 فیصد تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو 6 فیصد شرح نمو بڑی اچھی چیز ہے لیکن دو سال تک شرح نمو 6 فیصد رہے تو ہماری معیشت کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ مسائل شروع ہوجاتے ہیں، مہنگائی شروع ہوتی ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ آجاتا ہے۔

ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ شرح نمو میں ہماری تیز رفتاری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بدقسمتی سے مالی وسعت ہوگئی اور اس وجہ سے بھی طلب بڑھ گئی اور اس سال پھر سے شرح نمو 6 فیصد ہوگئی حالانکہ رواں سال تھوڑی سی کم ہونی چاہیے تھی تو اس وجہ سے بھی مہنگائی ہو رہی ہے۔

'دنیا بھر میں ماحول غیریقینی ہے'

انہوں نے کہا کہ اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے وہ بڑا مشکل اور غیر یقینی ہے، دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے سربراہان پریشان ہیں کیونکہ دنیا بھر میں مہنگائی ہو رہی ہے اور اس قسم کی مہنگائی ہم نے کوئی 50 سے 60 برسوں بعد دیکھی ہے۔

مزید پڑھیں: نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود 9.75فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی دنیا میں سب کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے اور پاکستان کے لیے بھی چیلنج ہے لیکن جس طرح ہم نے کووڈ کا مقابلہ کیا تھا اسی طرح اس مرحلے سے بھی نکل آئیں گے، مشکل مرحلہ ضرور ہے کیونکہ ایک سال تک مہنگائی بلند رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ اشیا کی قیمتیں اوپر گئی ہیں تو ایک سال تک مہنگائی رہے گی لیکن ہم کوشش کریں گے کہ مزید نہیں بڑھے تاکہ عام آدمی پر مزید باؤ نہ پڑے۔

'یہ فیصلہ نہ کرتے تو حالات مزید خراب ہوتے'

قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اگر ہم شرح سود آج نہیں بڑھاتے تو خدا نخواستہ مزید برے نتائج ہوسکتے تھے، مہنگائی پر کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا، ہائپر انفلیشن ہوسکتی تھی جو کئی ممالک میں ہوچکی ہے، اس سے یہ ہوتا کہ ایک دن کسی چیز کی قیمت کچھ ہوتی اور اگلے روز 100 فیصد بڑھ جاتی۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہمارے ذخائر اور کرنسی پر بھی مزید دباؤ آسکتا تھا اور ہم ایک بری صورت حال میں بھی پھنس سکتے تھے، حالات اس وقت بھی خراب ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ خراب ہوسکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے خیال میں آئندہ مالی سال 2023 میں شرح نمو 3 سے 4 فیصد کے درمیان ہوگی جو کہ ایک اچھی شرح ہے، اس سے مہنگائی کے مزید بڑھنے کا خطرہ کم ہوگا۔

'اگلے ایک سال تک مہنگائی 18 سے 20 فیصد ہوگی'

قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسی طرح اگلے سال کے لیے مہنگائی 18 سے 20 فیصد دیکھ رہے ہیں کیونکہ قیمتیں بڑھ گئی ہیں لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں قیمتوں کی سطح آگئی ہے وہاں سے مزید اوپر نہ جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں مہنگائی 13 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

ان کا کہنا تھا کہ ہم ماہانہ بنیاد پر مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں، سالانہ بنیاد پر ہونے والی مہنگائی بدقسمتی سے اگلے 12 ماہ کے لیے 18 سے20 فیصد رہے گی۔

ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ عام آدمی پر بہت دباؤ ہوگا تو کوشش کریں گے غریب طبقے کو بچایا جا سکے اور صاحب ثروت افراد کوشش کریں کہ ٹیکسز اور قیمتوں کا بوجھ زیادہ اٹھائیں، سبسڈیز ٹارگٹڈ ہو تاکہ عام آدمی کو فائدہ پہنچے۔

انہوں نے کہا کہ غذائی اشیا پر مہنگائی پر قابو پایا جائے، اس کو مانٹیری پالیسی کنٹرول نہیں کر سکتی لیکن کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں کم کرنے کے لیے اور چیزیں کی جاسکتی ہیں جیسا کہ اشیا کی پیداوار میں اضافہ کریں اور سپلائی میں جو تعطل آتا ہے اس پر قابو پایا جائے کیونکہ اس سے عام آدمی زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وفاقی ادارہ شماریات نے کہا تھا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 21.32 فیصد ہوگئی جو 13 سال کے بعد بلند ترین شرح پر ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جون میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 21.32 فیصد ہوگئی جو دسمبر 2008 کے بعد مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح ہے، جون میں شہری مہنگائی کی شرح 6.19 جبکہ دیہی علاقوں میں مہنگائی 6.57 فیصد بڑھی۔

اعداد و شمار کے مطابق مئی 2022 میں مہنگائی کی شرح 13.76 فیصد تھی جبکہ جون 2021 میں مہنگائی کی شرح 9.7 فیصد تھی، مالی سال 22-2021 کے لیے مقرر کردہ 8 فیصد اوسط مہنگائی کا ہدف بھی حاصل نہ ہوسکا اور گزشتہ مالی سال میں اوسط مہنگائی 12.15 فیصد رہی۔

تبصرے (0) بند ہیں