قومی اسمبلی میں وزرا کی عدم موجودگی پر اراکین کی شدید تنقید

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2022
ایوان میں وزرا کی غیر حاضری پر اراکین اسمبلی نے شدید احتجاج کیا — فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر
ایوان میں وزرا کی غیر حاضری پر اراکین اسمبلی نے شدید احتجاج کیا — فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر

قومی اسمبلی میں وزرا کی عدم موجودگی پر اراکین کی جانب سے شدید تنقید کی گئی جبکہ حکمراں اتحاد سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے قومی اسمبلی میں ملک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال، دہشت گردی اور سیلاب سمیت سنگین مسائل پر بحث کی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 70 سے زائد اراکین پر مشتمل کابینہ کے باوجود ایوان میں وزرا کی غیر حاضری پر اراکین اسمبلی نے شدید احتجاج کیا جس کے بعد ایوان کا ماحول سازگار نہ رہ سکا۔

یہ بھی پڑھیں: وزرا کی عدم موجودگی سے قومی اسمبلی کی کارروائی متاثر

اراکین اسمبلی نے اسپیکر راجا پرویز اشرف سے کہا کہ وہ سینئر وزرا پر دباؤ ڈالیں تاکہ ایوان میں وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ ملکی معاملات کا جائزہ لیا جاسکے، اس کے علاوہ تمام اراکین کو ایوان میں حاضری یقینی بنانے پر بھی زور دیا گیا۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں سیلابی صورتحال پر بحث کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایوان میں حاضری یقینی بنانی چاہیے، البتہ اراکین اسمبلی نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی ایوان میں غیر موجودگی پر ملک میں سیلابی صورتحال پر مزید بات کرنے سے انکار کردیا۔

وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ نے اسپیکر کو بتایا کہ انہوں نے کابینہ کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی کہا تھا کہ وہ ایوان میں موجودگی یقینی بنائیں۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونے کے سبب صدر کے خلاف مذمتی قرارداد پیش نہ ہوسکی

سید خورشید شاہ نے مزید کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کو اہمیت دینی چاہیے، احسن اقبال کو سیلاب سے متعلق بریفنگ دینی چاہیے اور ایوان میں حاضری لازمی یقینی بنانی چاہیے، انہوں نے کہا کہ 75 اراکین پر مشتمل کابینہ کے عام اراکین کو اسمبلی میں آنے کا کیسے بول سکتے ہیں جب کابینہ اراکین خود ایوان کو اہمیت نہیں دے رہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی اور وزیر تجارت نوید قمر نے خورشید شاہ کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے اسپیکر سے صورتحال پر نوٹس لینے کا بھی کہا۔

اسپیکر نے سوالات کا جواب نہ دینے والے وزرا کے سیکریٹریز کو چیمبر میں 11 اکتوبر کو پیش ہونے کا کہا ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کا بنیادی مقصد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا تھا، دونوں جماعتوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ جماعتیں پارلیمنٹ آنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، اگر ایسا ہے تو وزرا مستعفی ہوجائیں، انہوں نے تجویز پیش کی کہ وزارتیں اب اتحادیوں میں تقسیم کی جانی جانی چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی، وفاق اور پنجاب میں اپنی ہی حکومت پر برس پڑے

ایوان میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کچھ وزرا نے ملک میں فرقہ واریت، دہشت گردی کے واقعات اور ملک میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر اقدامات نہیں کیے گئے تو پورے ملک کو نقصان ہوگا۔

شمالی وزیرستان کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے سوات کے علاقے چار باغ میں اسکول وین پر دہشت گردی کے حملے پر توجہ مبذول کروائی، انہوں نے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے درمیان گٹھ جوڑ کا الزام لگایا۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس: حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی بدکلامی اور جھگڑا

محسن داوڑ نے خیبر پختونخوا میں دہشت گردی واقعات پر وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزرا کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے خبردار کیا کہ صوبے میں کسی بھی وقت حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔

خواجہ آصف نے صوبے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا ذمہ دار خیبر پختونخوا حکومت کو ٹھہراتے ہوئے تجویز پیش کی کہ ایوان میں صوبے کی صورتحال پر بحث ہونی چاہیے۔

انسانی حقوق کے وزیر ریاض پیرزادہ نے پنجاب میں امن و امان کی صورتحال پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے جس میں پنجاب میں بڑھتے ہوئے فرقہ واریت کے معاملے پر توجہ دلائی ہے اور معاملے پر فوری اقدامات اٹھانے کا کہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں