اومنی گروپ نے نیب سے بچنے کیلئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھایا، خواجہ حارث

11 اکتوبر 2022
اومنی گروپ کے مالک انور مجید—فائل فوٹو: ڈان نیوز
اومنی گروپ کے مالک انور مجید—فائل فوٹو: ڈان نیوز

احتساب قانون میں کی گئی ترامیم کے خلاف دائر درخواست میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نمائندگی کرنے والے خواجہ حارث احمد نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اومنی گروپ نے حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت صرف قومی احتساب بیورو (نیب) کو بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات سے روکنے کے لیے 4 ارب 85 کروڑروپے ظاہر کیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں الزامات کا سامنا ہے، جس کا آغاز عدالت عظمیٰ نے 2018 میں بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ سے متعلق رپورٹس کا ازخود نوٹس لینے کے بعد کیا تھا اور اس معاملے کو دیکھنے کے لیے 6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

جے آئی ٹی نے 19 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں نیب کو بدعنوانی کے کیسز کا نوٹس لینے کی سفارش کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اومنی گروپ کی شوگر ملیں چل رہی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، جہانگیر ترین

7 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے نیب کو معاملے کی چھان بین کا حکم دیا اور جرم ثابت ہونے کی موجودگی کی صورت میں ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی بھی اجازت دی تھی۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں ملوث رقم قبول کرنے کے بعد گروپ نے ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھایا اور اب نیب کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو نہیں دیکھ سکتا کیونکہ ایمنسٹی اسکیم سے متعلق معاملات پر بیورو کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے پیسہ کمایا لیکن سزا سے بچ گئے، وہ ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھا کر ٹیکس میں چھوٹ حاصل کر سکتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں رقم کا ذریعہ بتانا ہوگا۔

مزید پڑھیں: ’آصف زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس‘: نیب 33 ارب روپے وصول کر چکا ہے، فواد چوہدری

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ حالیہ ترامیم کے بعد اب استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ ریفرنس میں درج رقم غیر قانونی ذرائع کا پھل نہیں بلکہ جائز ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے بعد احتساب عدالتوں میں زیر التوا تمام ریفرنسز بے نتیجہ ہوجائیں گے اور تمام ملزمان بری ہوجائیں گے کیونکہ عدالتیں 50 کروڑ روپے سے کم کی کرپشن کے مقدمات نہیں سن سکتیں۔

تبصرے (0) بند ہیں