یونان میں ترکیہ کی سرحد کے قریب 92 تارکین وطن برہنہ حالت میں پائے گئے

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2022
یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان تمام مردوں نے اپنے کپڑے کیسے اور کیوں کھو دیے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز
یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان تمام مردوں نے اپنے کپڑے کیسے اور کیوں کھو دیے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز

یونانی پولیس نے ترکیہ کے ساتھ شمالی سرحد کے قریب سے 92 غیر قانونی تارکین وطن کے ایک گروپ کو بچایا جو برہنہ حالت میں تھے اور ان میں سے کچھ زخمی تھے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یونانی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ تمام پناہ گزین مرد ہیں جو جمعہ کے روز دریائے ایوروس کے قریب سے پائے گئے جو یونان اور ترکی کے درمیان سرحد کی نشاندہی کرتا ہے۔

بیان میں بتایا گیا کہ یونانی پولیس اور یورپی یونین کی سرحدی ایجنسی فرونٹیکس کے حکام کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ تارکین وطن ترکیہ سے ربر کی کشتیوں میں دریا عبور کر کے یونانی علاقے میں داخل ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: یونان میں کشتی ڈوبنے سے 18 مہاجرین ہلاک

بیان میں کہا گیا 'کہ سرحدی پولیس اہلکاروں نے بغیر کپڑوں کے 92 غیر قانونی تارکین وطن کو دریافت کیا جن میں سے کچھ کے جسموں پر زخم تھے'۔

یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان تمام مردوں نے اپنے کپڑے کیسے اور کیوں کھو دیے تھے۔

یونانی وزیر مائیگریشن نوٹیس میتاراچی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ تارکین وطن کے ساتھ ترکیہ کا سلوک 'تہذیب کے لیے شرمناک' ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایتھنز کو توقع ہے کہ انقرہ اس واقعے کی تحقیقات کرے گا، اس حوالے سے ترک حکام فوری طور پر تبصرہ کے لیے دستیاب نہیں ہوئے۔

مزید پڑھیں: یونان: تارکین وطن کی گاڑی کو حادثہ، پاکستانی شخص ہلاک

خیال رہے کہ 2015 اور 2016 میں جب شام، عراق اور افغانستان میں جنگ اور غربت سے بھاگنے والے تقریباً 10 لاکھ مہاجرین ترکیہ کے راستے یونان پہنچے تو یہ یورپی ہجرت کے بحران کے فرنٹ لائن پر تھا۔

اس کے بعد سے یہاں پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن یونانی حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں ترکیہ کی زمینی سرحد اور یونانی جزیروں کے ذریعے آنے والوں کی کوششوں میں اضافہ دیکھا ہے۔

یونان نے ترکیہ پر زور دیا ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ 2016 کے معاہدے کا احترام کرے جس میں انقرہ نے اربوں یورو کی امداد کے بدلے تارکین وطن کے یورپ میں بہاؤ کو روکنے پر اتفاق کیا تھا۔

دوسری جانب ترکیہ کا کہنا ہے کہ اس نے لوگوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کو تیز کردیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں