کراچی: عدالت نے ڈی ایس پی قتل کیس میں ایم کیو ایم کے 6 ملزمان کو رہا کردیا

29 اکتوبر 2022
ڈی ایس پی رانجھا سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کررہے تھے—فائل فوٹو
ڈی ایس پی رانجھا سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کررہے تھے—فائل فوٹو

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والے 6 ملزمان کو ڈی ایس پی اور اُن کے سیکیورٹی گارڈ کے قتل کے مقدمے میں ٹھوس شواہد نہ ہونے کے باعث رہا کردیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ان ملزمان پر سنہ 2010 میں ڈی ایس پی نواز رانجھا اور ان کے سیکیورٹی گارڈ پر ٹارگٹ کلنگ کرنے کا الزام تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم رہنما عامر خان سمیت 3 افراد مشتبہ عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کے مقدمے میں بری

عدالت نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ استغاثہ سماعت کے دوران ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے 6 ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ ڈی ایس پی نواز رانجھا 8 اکتوبر 2007 کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر کراچی کے علاقے کارساز میں جلوس کے دوران دو بم دھماکوں کے کیس اور ریڈیو پاکستان کی عمارت کے قریب ایم اے جناح روڈ میں قتل کیے گئے ہیڈ کانسٹیبل جہانگیر کے کیس کی تحقیقات کررہے تھے۔

بری ہونے والے 6 ملزمان میں اشتیاق الیاس پولیس والا، سید ابو عرفان الیاس عرفی، سید شاکر الیاس رافع، ذاکر حسین الیاس عدیل آغا، خواجہ محمد فیصل اور شفیق الیاس شفیق الرحمان شامل ہیں، ان ملزمان کے خلاف دوہرے قتل کے مقدمے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر کے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کے جج نے سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کی۔

مزید پڑھیں: پولیس اہلکاروں کے قتل کا معاملہ: متحدہ کے کارکن سمیت 4 ملزمان بری

جج نے دونوں فریقوں کے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔

جج کا کہنا تھا کہ وکیل ملزمان کے خلاف الزامات کوثابت کرنے میں ناکام رہا، عدالت نے شواہد نہ ہونے کی بنا پر ملزمان کو بری کر دیا ہے۔

عدالت نے جیل حکام کو حکم دیا کہ اگر کسی اور کیس میں ان کو تحویل میں رکھنے کی ضرورت نہیں تو ملزمان کو فوری رہا کیا جائے۔

گزشتہ 12 برسوں میں آنے والے دلچسپ موڑ

اس کیس میں گزشتہ 12 برسوں کے دوران کئی دلچسپ موڑ آئے۔

اپریل 2019 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے محمد اشتیاق اور ابو عرفان کو ڈی ایس پی رانجھا اور ہیڈ کانسٹیبل جہانگیر کو قتل کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے ابو عرفان کو مزید 10 سال کی سزا بھی سنائی تھی جبکہ دیگر 4 شریک ملزمان کے خلاف شواہد نہ ہونے کی سبب ملزمان کو رہا کردیا تھا۔

بعد ازاں دونوں ملزمان نے اپنے خلاف سزا کے فیصلہ کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور عدالت نے اپیلیں کو منظور کرلیا تھا، سندھ ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران اشتیاق علی اور ابو عرفان کی عمر قید سزا کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے غیر قانونی طور پر فیصلہ سناتے ہوئے قانونی طریقہ کار پر عمل درآمد نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: علما کا قتل: ایم کیو ایم کے کارکن کو عمر قید کی سزا

سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کی عمر قید کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمہ دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیج دیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے عدالت کو تین ماہ کے اندر کیس کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ کرنے کی ہدایت بھی جاری کیں۔

پریڈی پولیس اسٹیشن میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ کے تحت قتل)، 324 (قتل کرنے کی کوشش) 353 ( سرکاری ملازم کو ڈیوٹی سے روکنے کے لیے فوجداری طاقت کا استعمال)، 427 ( 50 روپے کا نقصان)، 34 (مشترکہ نیت کے تحت قتل) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں