جسٹس نور مسکانزئی کے قاتل سمیت 2 ملزمان گرفتار

30 اکتوبر 2022
جسٹس محمد نور مسکانزئی کو 14 اکتوبر کو دوران نماز قتل کیا گیا تھا—فائل فوٹو: بلوچستان ہائی کورٹ ویب سائٹ
جسٹس محمد نور مسکانزئی کو 14 اکتوبر کو دوران نماز قتل کیا گیا تھا—فائل فوٹو: بلوچستان ہائی کورٹ ویب سائٹ

محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے بلوچستان ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ جسٹس محمد نور مسکانزئی کے مشتبہ قاتل سمیت 2 ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سربراہ محکمہ انسداد دہشتگردی بلوچستان اعتزاز گورائیہ نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تعلق رکھنے والے شفقت اللہ یلانزئی نے سابق چیف جسٹس کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس نور مسکانزئی کے قتل کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل

جسٹس محمد نور مسکانزئی کو 14 اکتوبر کو اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ اپنے آبائی قصبے خاران کی ایک مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے، حملے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

ڈی آئی جی اعتزاز گورائیہ نے بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور جیو فینسنگ اور شواہد اکٹھے کرنے کے بعد ملزم تک پہنچ کر شفقت اللہ یلانزئی اور اس کے ساتھی عبدالرحیم یلانزئی کو خاران کے علاقے سے گرفتار کیا، ان کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔

اعتزاز گورائیہ نے دعویٰ کیا کہ ’گرفتار ملزم نے تفتیش کے دوران بی ایل اے کے ساتھ اپنی وابستگی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور تنظیم کے دیگر ارکان اور اس کے نیٹ ورک کے بارے میں معلومات فراہم کیں‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ملزم نے حساس ادارے کے دفتر، تھانوں پر دستی بم حملے اور خاران میں چیف چوک پر موٹر سائیکل دھماکے سمیت متعدد دیگر دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا‘۔

مزید پڑھیں: خاران: نامعلوم افراد کی فائرنگ، بلوچستان ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس نور مسکانزئی جاں بحق

اعتزاز گورائیہ نے بتایا کہ مشتبہ شخص نے دعویٰ کیا کہ اس نے 2020 میں ایران کے علاقے سراوان میں تربیت حاصل کی تھی اور اس کا کمانڈر بھی ایران میں تھا جس سے اسے ہدایات ملی تھیں،

انہوں نے بتایا کہ محکمہ انسداد دہشتگردی نے گزشتہ ایک برس کے دوران 666 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا، عدالتوں نے ان میں سے 121 کو جیل بھیجا، 36 کو ضمانت پر رہا کیا جبکہ 158 مختلف مقدمات میں مفرور ہیں، علاوہ ازیں چند ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔

اعتزاز گورائیہ نے بلوچستان میں داعش کے کیمپوں کی موجودگی سے انکار کیا تاہم انہوں نے کہا کہ داعش کے ارکان کی موجودگی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

سربراہ محکمہ انسداد دہشتگردی نے کہا کہ ’دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مختلف کارروائیوں کے دوران ادارے کے بہت سے اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور زخمی بھی ہوئے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: وکیل قتل کیس میں کالعدم تنظیم کے 2 کارکنوں کو سزائے موت

خاران آپریشن میں مارے گئے ملزمان دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث تھے، سی ٹی ڈی پولیس نے کارروائی کے دوران 82 ایم ایم کے 12 مارٹر گولے قبضے میں لے لیے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپریشن میں ہلاک ہونے والے ہر شخص کو ’لاپتا شخص‘ نہیں سمجھا جا سکتا، ماضی میں یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ سیکیورٹی آپریشنز میں مارے جانے والوں میں سے کچھ ’لاپتا افراد‘ بھی تھے لیکن بعد میں وہ زندہ پائے گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں