حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایکٹ میں ترمیم منظور کرلیا، جس کے تحت پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ کے تحت اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف افواہیں اور غلط معلومات پھیلانے والے کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی کرسکے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے 1974 کے ایف آئی اے ایکٹ کے شیڈول میں ترمیم کی سمری وفاقی کابینہ نے جمعرات کو منظور کی تھی۔

ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب سمری کے مطابق ایف آئی اے نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں اور آرگنائزیشنز کے خلاف جھوٹی معلومات اور افواہوں کی بھرمار ہے، جس کا مقصد نقصان پہنچانا یا اکسانا ہے، یا ممکنہ طور پر فوج، پاک فضائیہ، بحریہ کے کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو جرم یا بغاوت پر اکسانا ہے، یا پھر ان کو ڈیوٹی انجام دینے سے روکنے کی کوشش کرنا ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: ایف آئی اے نے 'اے آر وائی 'کے اینکر چوہدری غلام حسین کو گرفتار کرلیا

مزید بتایا گیا کہ ان افواہوں اور جھوٹی معلومات کو نقصان کے ارادے سے بھی پھیلایا جارہا ہے یا پھر ممکنہ طور پر اس سے عوام میں خوف اور خطرے کی گھنٹی بج سکتی ہے اور اس کی وجہ سے کوئی شخص ریاست یا امن عامہ کے خلاف جرم کا ارتکاب کرسکتا ہے۔

ایف آئی اے نے مزید بتایا کہ ممکنہ طور پر اس کی وجہ سے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص یا کسی بھی دوسرے طبقے کے خلاف جرم کرنے پر اکسا سکتا ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے نے حکومت سے درخواست کی کہ اس پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 505 ( بیان جس کا مقصد اشتعال دلانا ہو) کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے، تاہم یہ ایف آئی اے ایکٹ کے شیڈول میں شامل نہیں ہے، حکومت اس دفعہ کو ایکٹ میں شامل کرنے کی منظوری دے۔

پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 505 کی ذیلی شق (1) میں بتایا گیا کہ کوئی بھی شخص اس سے متعلقہ جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو جرمانے کے ساتھ اس کو 7 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

ایف آئی اے کے افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پہلے کارروائی کرنے کے لیے کابینہ کی منظوری اور بیوروکریسی سے دیگر چیزیں درکار ہوتی تھیں لیکن یہ دفعہ ایکٹ میں شامل کرنے کے بعد اب کسی تاخیر کے بغیر کارروائی کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے نے عمران خان کو طلب کرلیا

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح ایف آئی اے کے دیگر ونگز جس میں انسداد دہشت گردی ونگ بھی شامل ہے، وہ بھی کسی ایسے مواد کے خلاف کارروائی کرسکے گا جو اس کے دائرہ کار میں آتا ہے اور مقدمہ بھی درج کیا جاسکتا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس آرگنائزیشن ‘بولو بھی’ کی شریک بانی فریحہ عزیز نے ردعمل دیتے ہوئے بتایا کہ 2016 سے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) کا مخالفین کے خلاف استعمال ریاست کا ہتھیار بن چکا ہے۔

8 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند برسوں سے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں دفعہ 505 شامل کرنا عام ہو گیا ہے لیکن یہ پولیس کے اختیار میں آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت میں تبدیلی کے ساتھ ہی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سربراہ برطرف

فریحہ عزیز نے مزید کہا کہ ایسی چیزیں جن کے لیے عدالت کی اجازت یا وارنٹ کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر پولیس پر انحصار کرنا پڑتا ہے، ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ایف آئی اے کو مزید بااختیار بنایا جارہا ہے تاکہ وہ مزید تیزی سے کریک ڈاؤن جاری رکھ سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں