کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت(اے ٹی سی) نے مچھر کالونی میں اغوا کے خوف پر ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے دو ٹیلی کام ملازمین کے قتل کے حوالے سے گرفتار مزید 15ملزمان کو تفتیش کے لیے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

تفتیشی افسر نے 15 ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج کے سامنے پیش کیا اور تحقیقات کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

تفتیشی افسر نے ابو کلام، محمد رفیق، عمران خان، محمد یوسف، عبدالمناف، صدیق، عبداللہ، محمد شیراز، زین العابدین، جاوید، ربیع الاسلام، عطا اللہ عرف اختر حسین، علی حسین، محمد حسن اور اعجاز کو عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گرفتار کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوا کہ یہ لوگ متاثرین کو تشدد کرنے میں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: موبائل کمپنی کے ملازمین کو تشدد کرکے قتل کرنے کے الزام میں 34 افراد گرفتار

انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ گرفتار ملزمان سے تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے بھاگنے والے ساتھیوں کو گرفتار کیا جاسکے۔

تفتیشی افسر نثار سومرو نے مؤقف اپنایا کہ الم ناک واقعے کی تفتیش ابھی نامکمل ہے اور دیگر قانونی تقاضوں کو بھی پورا کرنا باقی ہے۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ مذکورہ ملزمان کی تحقیقات کے لیے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائے۔

تاہم جج نے 11 نومبر تک جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا اور تفتیشی افسر کو ہدایات دیں کہ انہیں اگلی تاریخ پر تحقیقاتی رپورٹ کے ساتھ پیش کریں۔

واضح رہے کہ مشتعل ہجوم نے موبائل کمپنی کے ملازمین ایمن جاوید اور ڈرائیور محمد اسحٰق کو مار مار کر ہلاک کر دیا تھا، اس کیس میں پولیس نے اب تک 30 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ 200 سے 250 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

ٹھٹھہ سے تعلق رکھنے والے ایمن جاوید اور نوشہروفیروز کے رہائشی اسحٰق مہر کو مبینہ طور پر 200 سے 250 افراد کے مشتعل ہجوم نے تشدد کرکے ہلاک کر دیا تھا، انہیں بچوں کے قتل کی افواہ پر پتھر اور اینٹیں ماری گئیں۔

عینی شاہدین کے طور پر دو پولیس اہلکاروں نے اب تک الم ناک واقعے کے 4 مشتبہ افراد کو شناخت کر لیا ہے، جن میں محمد فاروق، ربیع الاسلام، فیصان اور غفور شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: مچھر کالونی میں تشدد سے ہلاکت کا معاملہ، ملزمان ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

دیگر مشتبہ ملزمان پہلے ہی ریمانڈ پر زیر حراست ہیں جن میں امین، رحمت اللہ، جان عالم، عمران، بلال، منان، نور الحق، نور الاسلام، احمد رضا، شفیق، حسین، علی حسین، زبیر اور شریف عرف شریفو شامل ہیں۔

واضح رہے کہ مقتول محمد اسحٰق کے چچا محمد یعقوب کی شکایت پر ڈاکس پولیس اسٹیشن میں 200 سے 250 افراد کے خلاف مقدمہ درجہ کیا گیا ہے۔

مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (قتل)، دفعہ 147 (فساد کی سزا)، دفعہ 148 (فساد، مہلک ہتھیاروں سے لیس)، دفعہ 149 (ایک ہی جرم کے لیے غیر قانونی طور پر جمع ہر شخص قصوروار)، دفعہ 427 (شرارت جس سے 50 روپے کا نقصان ہونا)، دفعہ 435 (شرارت کرکے 100 روپے کے نقصان پہنچانے کے ارادے سے آگ لگانا)، دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، اس کے ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 (دہشت گردی کرنے کی سزا) شامل کی گئی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں