اور بالآخر انگلینڈ سیمی فائنل میں پہنچ گیا جبکہ میزبان آسٹریلیا دفاعی چیمپیئن ہونے کے باوجود اپنے ہی ملک میں ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں پہنچنے میں ناکام ہوگیا۔

مجھے بار بار ایسا لگ رہا ہے جیسے 1987ء اور 1992ء میں ہونے والے کام ایک بار پھر دہرائے جا رہے ہیں، کیونکہ 1987ء میں جب آسٹریلوی ٹیم عالمی چیمپئن بنی تھی تو وہ کسی بھی طور پر فیورٹ تصور نہیں ہورہی تھی، لیکن جب اگلی مرتبہ ایونٹ آسٹریلیا میں ہونا تھا تو میزبان کو فیورٹ قرار دیا جارہا تھا، مگر آسٹریلیا پہلے ہی راؤنڈ میں ایونٹ سے باہر ہوگیا۔

بالکل اسی طرح جب 2021ء میں ٹی20 ورلڈ کپ کھیلا جارہا تھا تو کسی نے تصور تک نہیں کیا تھا کہ اس بار چیمپئن آسٹریلیا ہوگا، اور پھر جب 2022ء میں یہ ایونٹ آسٹریلیا میں ہوا تو میزبان کو ایک بار پھر فیورٹ قرار دیا جائے لگا، لیکن اس بار بھی میزبان ملک اگلے مرحلے میں نہیں جاسکا۔

ویسے اگر تاریخ خود کو دہرا رہی ہے تو کیا ایک مرتبہ پھر پاکستان کسی کرشمے کے باعث سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں اگلے 24 گھنٹے انتظار کرنا ہوگا۔

آج سڈنی کے میدان پر گروپ 1 کا آخری اہم ترین میچ انگلینڈ اور سری لنکا کے درمیان کھیلا گیا۔ یہ میچ اس لیے بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا تھا کیونکہ اس میچ کی فاتح ٹیم کو اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ اس گروپ سے نیوزی لینڈ کے بعد کونسی ٹیم سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرے گی۔

اس مقابلے پر اثر انداز ہونے والے اہم کھلاڑی اور لمحات پر نظر ڈالیں تو ایک دلچسپ تجزیہ سامنے آتا ہے جسے درج ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔


سری لنکا کی بیٹنگ کا محور


سری لنکا نے ٹاس جیت کر جب پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کے اوپنرز پتھوم نسانکا اور کوسال مینڈس نے اپنی ٹیم کو شاندار آغاز فراہم کیا۔ اس اننگ میں نسانکا پورے جوبن پر نظر آر ہے تھے۔ انہوں نے جس اعتماد کے ساتھ انگلینڈ کے باؤلرز کا سامنا کیا وہ قابلِ دید تھا۔

انگلینڈ کی جانب سے اس پورے ایونٹ میں مارک ووڈ اپنی رفتار اور اچھی باؤلنگ کی وجہ سے اہم سمجھے جارہے تھے لیکن جس طرح ان کے پہلے ہی اوور میں نسانکا نے 17 رنز بٹورے اس سے ان کا اعتماد کُھل کر سامنے آیا۔ ان کی بیٹنگ کا دباؤ اس قدر تھا کہ انگلینڈ کے کپتان دوبارہ پاور پلے میں ووڈ کو باؤلنگ کے لیے نہیں لائے۔

نسانکا کی شاندار کارکردگی کی بدولت سری لنکن ٹیم پاور پلے میں ایک وکٹ کے نقصان پر 54 رنز بنانے میں کامیاب رہی۔ یہ سلسلہ پاور پلے کے بعد بھی جاری رہا اور انہوں نے 67 رنز پر مشتمل اننگ کھیل کر اپنی ٹیم کو بہترین آغاز فراہم کردیا تھا، مگر بدقسمتی سے سری لنکا اننگ کا اختتام اچھے طریقے سے نہیں کرسکا اور سچ پوچھیے تو شکست کی وجہ آخری کے یہی 5 اوورز تھے جس میں یہ ٹیم محض 25 رنز بنا سکی۔

ان خراب آخری 5 اوورز کی وجہ سے سری لنکا نے مقررہ اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 141 رنز بنائے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس ٹورنامنٹ میں سڈنی کے میدان پر کسی بھی ٹیم کا پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے یہ کم ترین اسکور ہے۔


اسپنرز انگلینڈ کو میچ میں واپس لے آئے


جس وقت میچ کا آغاز ہوا تھا تو عام خیال یہ تھا کہ انگلینڈ کے فاسٹ باؤلرز مخالف ٹیم کے لیے مشکلات پیدا کریں گے لیکن سری لنکا کے لیے اصل مشکلات انگلینڈ کے اسپنرز نے پیدا کیں۔

اب تک کھیلے گئے میچوں میں انگلینڈ کے اسپنرز کوئی خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کرسکے لیکن آج کے میچ میں اسپنرز کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

انگلینڈ کے 3 اسپنرز عادل رشید، معین علی اور لیام لوِنگسٹون نے 7 اوورز کروائے اور صرف 37 رنز دے کر ایک وکٹ حاصل کی۔ انگلینڈ کی جانب سے سب سے کامیاب باؤلر عادل رشید رہے جنہوں نے 4 اوورز میں صرف 16 رنز دیے اور ایک وکٹ حاصل کی اور ان کو اس کارکردگی کے سبب میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں یہ عادل رشید کی پہلی وکٹ بھی تھی۔

اس بار انگلینڈ کے کپتان جوز بٹلر نے عادل رشید کو پاور پلے میں بھی آزمایا اور انہوں نے پاور پلے کا آخری اوور کیا جس میں صرف 2 رنز دیے۔ یہی نہیں بلکہ سری لنکا جب آخری 5 اوورز میں جارحانہ کھیل پیش کرنے کی بھرپور تیار کررہا تھا، تب عادل رشید اننگ کے 16ویں اوور کے لیے آئے اور صرف 4 رنز دیے بلکہ اس اننگ میں نسانکا کی اہم ترین وکٹ بھی حاصل کی جو 67 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔


ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ کا دھواں دھار آغاز


انگلینڈ کے اوپنرز نے جب اننگ کا پہلا اوور کھیلا تو وہ کچھ گھبرائے ہوئے لگے اور اس اوور میں صرف 3 رنز ہی بن سکے۔ اسپنز مہیش تھیکشانا نے اس اوور میں اچھی لائن اور لینتھ پر باؤلنگ کرتے ہوئے دونوں اوپنرز کو پریشان کیا۔

اسپنر کے ایک اچھے اوور کے بعد اننگ کا دوسرا اوور فاسٹ باؤلر کاسون رجیتھا کو دیا گیا جنہوں نے 12 رنز دے کر بیٹسمینوں پر بننے والا دباؤ ختم کردیا۔ انگلینڈ کے بیٹسمینوں نے اس دباؤ کے ہٹنے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاور پلے میں بغیر کسی نقصان کے 70 رنز بنا لیے اور یہیں سے میچ ان کی گرفت میں آگیا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سری لنکا کے کپتان پہلے اوور میں اسپنر کی کامیابی کے بعد اگر پاور پلے کے تمام اوورز اسپنرز سے کرواتے صورتحال مختلف ہوسکتی تھی۔


سری لنکا کے اسپنرز اپنی ٹیم کو میچ میں واپس لے آئے


اگر یہ کہا جائے کہ آج کے میچ میں اسپنرز کا کردار اہم ترین رہا تو یہ بات غلط نہیں ہوگی۔ آج سے پہلے اس ٹورنامنٹ میں محض چند مواقعوں کے علاوہ اسپنرز نے زیادہ متاثر نہیں کیا، مگر آج معاملہ مختلف تھا۔

سری لنکن اسپنر ونندو ہاسارنگے اگرچہ پاور پلے میں کروائے جانے والے اوور میں مہنگے ثابت ہوئے اور 12 رنز دے دیے، مگر اس کے بعد انہوں نے شاندار واپسی کی اور اپنے آخری 3 اوورز میں نہ صرف 11رنز دیے بلکہ دونوں اوپنرز الیکس ہیلز اور جوز بٹلز کی قیمتی وکٹیں بھی حاصل کیں۔

سری لنکا کے دیگر اسپنرز نے بھی اچھی باؤلنگ کی اور مخالف بیٹسمینوں کو کُھل کرنے بیٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ سری لنکا کے اسپنرز نے مجموعی طور پر 13 اوورز کروائے اور صرف 77 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ یہ سری لنکا کے اسپنرز کے باعث ہی ممکن ہوا کہ ایک بظاہر آسان نظر آنے والے ہدف کے حصول کے لیے انگلینڈ کو دانتوں پسینہ آگیا تھا۔


بین اسٹوکس کی ذمہ دارانہ کارکردگی


انگلینڈ کے ٹیسٹ کپتان بین اسٹوکس اب تک اس ٹورنامنٹ میں بجھے بجھے دکھائی دے رہے تھے مگر آج ان کی کارکردگی کھیل کے ہر شعبے میں قابلِ تعریف رہی۔

آج بین اسٹوکس جب ڈیوڈ ملان کی جگہ تیسرے نمبر پر بیٹنگ کے لیے آئے تو انگلینڈ ایک مضبوط پوزیشن میں تھا لیکن پھر اسٹوکس کے سامنے وقفے وقفے سے وکٹیں گرتی رہیں اور صورتحال مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی گئی۔

انگلینڈ کی اننگ کا جائزہ لیں تو انہوں نے ابتدائی 7 اوورز میں بغیر کسی نقصان کے 74 رنز بنا کر میچ پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی لیکن پھر اننگ کے اگلے 8 اوورز میں صورتحال نازک ہوگئی کیونکہ ان اوورز میں صرف 39 رنز بنے اور آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔

آخری 5 اوورز میں انگلینڈ کو جیت کے لیے صرف 29 رنز درکار تھے مگر یہاں بھی حالات زیادہ اچھے نہیں تھے کیونکہ یہ ہدف اننگ کے آخری اوور میں حاصل ہوا۔ اگر سری لنکن کھلاڑی آخری 5 اوورز میں بھی اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کرلیتے اور اسکور 160 تک پہنچ جاتا تو انگلینڈ کے لیے مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوسکتا تھا۔

بہرحال اس جیت کے ساتھ ہی انگلینڈ نے ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ بین اسٹوکس نے دباؤ میں خود کو سنبھالے رکھا اور ناقابلِ شکست 42 رنز بناکر اپنی ٹیم کو ایک اہم فتح دلو ا دی۔


گروپ 1 کے تمام میچ مکمل


گروپ 1 کے اب تمام میچ مکمل ہوگئے ہیں اور اس گروپ سے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا ہے۔

آسٹریلوی ٹیم نے جب پہلے ہی میچ میں نیوزی لینڈ سے شکست کھائی تو اس کے بعد وہ اپنے اصل رنگ میں نظر نہیں آسکی۔ وہ صرف کم رن ریٹ کی وجہ سے ایونٹ سے باہر ہوئی ہے کیونکہ نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے 7، 7 پوائنٹس ہیں۔ آسٹریلوی ٹیم کو اپنا رن ریٹ بہتر کرنے کے لیے مخالف ٹیموں سے کُل 52 رن کے فرق سے میچ جیتنے کی ضرورت تھی، مگر اس نے آئرلینڈ اور افغانستان کے خلاف اچھے مواقع ضائع کردیے۔

مثال کے طور پر آئرلینڈ کے خلاف میچ میں آسٹریلیا نے مخالف ٹیم کے 25 رنز پر 5 کھلاڑی آؤٹ کردیے تھے مگر اس کے باوجود وہ 137 رنز تک پہنچ گئی۔ اسی طرح افغانستان کی ٹیم بھی جب 169 رنز کے ہدف کے لیے میدان میں اتری تو اس کے 103 رنز پر 6 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے مگر یہاں بھی باؤلرز نے زیادہ زور نہیں لگایا اور اس میچ میں آسٹریلیا کو صرف 4 رنز سے کامیابی ملی۔

اس گروپ سے سیمی فائنل میں پہنچنے والی ٹیموں کو اپنے اگلے میچ کے مقام کا علم تو ہوگیا ہے لیکن اپنے مخالف کے بارے میں جاننے کے لیے ان کو بھی کل تک انتظار کرنا ہوگا کیونکہ کل گروپ 2 میں 3 اہم ترین میچ کھیلے جانے ہیں جن میں نہ صرف جیت بلکہ بہت سارے اگر، مگر بھی سیمی فائنل میں پہنچنے والی ٹیموں کا فیصلہ کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں