'بدقسمت اور نظر انداز سرزمین'، جو بائیڈن کے متنازع بیان پر افغانی ناراض

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2022
امریکی صدر نے سان ڈیاگو میں ایک انتخابی ریلی کے دوران انہوں نے افغانستان کو نشانہ بنایا — فائل فوٹو: رائٹرز
امریکی صدر نے سان ڈیاگو میں ایک انتخابی ریلی کے دوران انہوں نے افغانستان کو نشانہ بنایا — فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان کو 'نظر انداز، بدقسمت 'سرزمین قرار دے کر افغان قوم کو ناراض اور برہم کردیا جب کہ کابل کے حکمراں طالبان نے دعویٰ کیا کہ امریکی رہنما مایوسی کا شکار ہوکر ایسے بیانات دے رہے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ صدر جو بائیڈن نے پاکستانیوں کو ناراض کیا تھا جب انہوں نے پاکستان کو دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ایسا ملک قرار دیا تھا جس کے پاس بغیر کسی مربوط نظام کے جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

جمعہ کے روز سان ڈیاگو میں ایک انتخابی ریلی کے دوران انہوں نے افغانستان کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حاضرین میں سے بہت سے لوگ افغانستان جاچکے ہوں گے، میں اس کے چپے پچے میں گیا ہوں، یہ دھتکارا ہوا، بدقسمت ملک ہے۔

اس دوران انہوں نے بطور ایک سینیٹر اور امریکی نائب صدر افغان جنگی علاقے کے اپنے کئی دوروں کا ذکر کیا جس میں 2008 میں وہ سفر بھی شامل تھا جس کے دوران وہ برف میں پھنس گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان شاید دنیا کی خطرناک ترین اقوام میں سے ایک ہے، امریکی صدر

طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں جو بائیڈن کے ریمارکس کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکی رہنما مایوسی کا شکار ہو کر ایسے بیانات دے رہے ہیں جب کہ ان کی پارٹی امریکا میں وسط مدتی انتخابات میں شکست کھا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات دینے والے افغانستان کے لیے اپنی مایوسی اور حسد کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگست 2022 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں امن اور استحکام لوٹ آیا ہے اور افغان عوام معمول کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’امریکا کی نظر میں روس کے بجائے چین سب سے بڑا جغرافیائی سیاسی چیلنج ہے‘

امریکی صدر جو بائیڈن نے طالبان کے ساتھ دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کو واپس بلا لیا تھا اور انخلا کے نتیجے میں کابل میں امریکی حمایت یافتہ حکومت فوری طور پر ختم ہوگئی۔

براؤن یونیورسٹی کے تخمینے کے مطابق افغانستان میں امریکی تاریخ کی سب سے طویل فوجی مداخلت پر واشنگٹن نے تقریباً 2 ٹریلین ڈالر خرچ کیے جب کہ 2001 سے اب تک 2 ہزار 400 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔

امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے اپنی حمایت یافتہ حکومت گرنے کے بعد کابل کو دی جانے والی مالی امداد معطل کردی تھی، جب کہ جو بائیڈن انتظامیہ نے بھی بینکنگ سیکٹر پر پابندیاں عائد کردی تھیں اور افغان مرکزی بینک کے اربوں ڈالر کے غیر ملکی اثاثوں کو منجمد کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں