کینین پیتھالوجسٹ نے ارشد شریف پر موت سے قبل تشدد کا دعویٰ مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2022
ڈاکٹر احمد نے نشاندہی کی کہ ارشد شریف کو لگنے والے زخم اور ان کی موت کے درمیان وقت کا دورانیہ 10 سے 30 منٹ تک تھا—فائل فوٹو : ٹوئٹر
ڈاکٹر احمد نے نشاندہی کی کہ ارشد شریف کو لگنے والے زخم اور ان کی موت کے درمیان وقت کا دورانیہ 10 سے 30 منٹ تک تھا—فائل فوٹو : ٹوئٹر

کینیا کے ایک کنسلٹنٹ پیتھالوجسٹ نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کو قتل سے قبل 2 سے 3 گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے پاکستانی میڈیا پر چلنے والی خبروں کی تردید کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کینیا کے ایک اخبار نے ایک مقامی ماہر کا حوالہ دیا جس نے ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کے نتائج کا تجزیہ کیا اور ان پر تشدد کیے جانے کے مؤقف کو مسترد کیا۔

یہ بھی پڑھیں: معروف صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کینیا میں ’قتل‘

کینیا کے نیشن اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ کچھ پاکستانی میڈیا چینلز کی جانب سے کینیا کے حکام کے اس باضابطہ مؤقف پر شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت کے نتیجے میں گولی مار کر قتل کیا۔

ارشد شریف کی موت سے قبل ان پر تشدد کا دعویٰ سب سے پہلے اس وقت منظر عام پر آیا جب ایک پاکستانی صحافی و اینکر پرسن نے ارشد شریف کے قتل کی چونکا دینے والی تفصیلات بتائیں۔

صحافی نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف کو 3 گھنٹے سے زیادہ وقت تک وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کرنے سے پہلے ان کے ناخن انگلیوں سے کھینچ لیے گئے، شدید تشدد سے ان کی انگلیاں اور پسلیاں بھی ٹوٹ گئی تھیں۔

ارشد شریف کی موت کو ایک سوچا سمجھا قتل قرار دیتے ہوئے صحافی نے دعویٰ کیا تھا کہ گولیاں ارشد شریف کے سر کے پچھلے حصے پر نزدیک سے چلائی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف کے قتل میں خرم اور وقار ملوث ہیں، راناثنا اللہ

اس حوالے سے کینیا کے اخبار ’نیشن‘ نے نیروبی میں مقیم ایک کنسلٹنٹ پیتھالوجسٹ ڈاکٹر احمد کلیبی سے رابطہ کیا جنہوں نے ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کی 2 رپورٹس کا تجزیہ کیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ارشد شریف کو لگنے والے زخم اور ان کی موت کے درمیان وقت کا دورانیہ 10 سے 30 منٹ تک تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’رپورٹ میں زخم سے موت تک کے درمیان وقفے کے پیچھے وجہ کی وضاحت نہیں کی گئی، ایسا لگتا ہے کہ یہ اندازہ کسی خاص ہسٹوپیتھولوجیکل جائزے یا مزید سائنسی جانچ کے بجائے دماغ اور دائیں پھیپھڑوں میں نظر آنے والے زخموں کی بنیاد پر لگایا گیا ہے‘۔

ڈاکٹر احمد کلیبی نے وضاحت کی کہ کینیا اور پاکستان میں کیے گئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹس میں تشدد کا کوئی ثبوت نہیں ہے، رپورٹ میں دیگر زخموں کا کوئی ثبوت درج نہیں کیا گیا جس کا تشدد سے کوئی تعلق ہو اور نہ ہی اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ موت سے قبل مقتول کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف قتل: ادارے پر الزام تراشی سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے تحقیقات ہونی چاہیے، پاک فوج

رپورٹ کے مطابق کینیا میں چیف پیتھالوجسٹ ڈاکٹر جوہانسن اوڈور نے ارشد شریف کا پوسٹ مارٹم کیا جبکہ پاکستان میں پوسٹ مارٹم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے پروفیسر ایس ایچ وقار کی سربراہی میں 8 رکنی ٹیم نے کیا۔

’نیشن میڈیا گروپ‘ کے ایک تفتیشی رپورٹر برائن اوبیا نے پوسٹ مارٹم رپورٹ ٹوئٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتائج ’پاکستان میں 8 ڈاکٹروں کی جانچ سے بالکل مماثلت رکھتے ہیں، ایسے وقت میں ہمیں پروپیگنڈے، سنسنی اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں سے ہوشیار رہنا چاہیے جب ہم ارشد شریف کے لیے انصاف کے متلاشی ہیں‘۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو کھوپڑی کے بائیں حصے پر کان کے اوپر گولی لگی تھی، ان کی کھوپڑی کا کچھ حصہ غائب تھا، اس کے علاوہ ایک اور گولی پچھلے حصے سے جسم میں داخل ہوئی اور سینے سے باہر نکل گئی، اس رپورٹ میں پھیپھڑوں اور ہیموتھوریکس کو پہنچنے والے نقصان کا بھی ذکر کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی موت سر اور سینے پر گولیوں کے متعدد زخموں کے سبب ہوئی، گولیاں درمیانے فاصلے سے تیز رفتار سے آتشیں اسلحے سے چلائی گئیں۔

ارشد شریف کو زہر دیے جانے کے امکان کی جانچ کے لیے پوسٹ مارٹم کے دوران ان کے جگر کا ایک حصہ اور ران سے ایک رگ کو نکالا گیا تھا جبکہ ڈی این اے اور دیگر چیزوں کے لیے ان کے ناخن بھی نکالے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں