بجلی کے بھاری نرخوں کے باوجود گردشی قرضے میں مسلسل اضافہ

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2022
سربراہ نیپرا نے مشاہدہ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹیرف کی بحالی سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے — فائل فوٹو: اے ایف پی
سربراہ نیپرا نے مشاہدہ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹیرف کی بحالی سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے — فائل فوٹو: اے ایف پی

حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ صارفین پر ایک کھرب 20 ارب روپے کے اضافی بوجھ سمیت بجلی کے نرخوں میں 50 فیصد سے زائد اضافے کے باوجود وصولی اور نقصانات کے اہداف کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 3 ماہ میں صارفین پر 43 ارب 34 کروڑ روپے (2.18 روپے فی یونٹ) کا مالی بوجھ ڈالنے کے لیے عوامی سماعت میں اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے پاور ڈویژن نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو بتایا کہ گردشی قرضہ 185 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 24 کھرب 37 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جو گزشتہ برس ستمبر کے آخر میں 22 کھرب 53 ارب تھا۔

چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی نے کہا کہ جولائی تا ستمبر کی مدت کے لیے سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ (کیو ٹی اے) کے تحت پاور ڈویژن کی جانب سے مانگے گئے 43 ارب 34 کروڑ روپے کے اثرات 3 ماہ کے لیے تمام سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے لیے 2.18 روپے فی یونٹ اضافی چارج کی صورت میں شمار ہوں گے، میکانزم کے تحت یہ صارفین سے آنے والے 3 ماہ (جنوری سے مارچ) میں وصول کرنا ہوگا۔

جوائنٹ سیکریٹری پاور ڈویژن محمود بھٹی نے نیپرا سے درخواست کی کہ فروری اور مارچ کے دو مہینوں میں اضافی کیو ٹی اے کی وصولی کی اجازت دی جائے تاکہ صارفین پر گزشتہ کیو ٹی اے کی طرح 3.30 روپے فی یونٹ کے حساب سے ٹیرف میں اضافے کا اثر نہ پڑے۔

انہوں نے کہا کہ 3 ماہ کے دوران 2.18 روپے فی یونٹ اگر جنوری کے بعد دو ماہ میں چارج کیا جائے تو 3.16 روپے فی یونٹ ہوجائے گا جس سے صارفین کو یکدم قیمت کا بڑا بوجھ محسوس ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں محمود بھٹی نے کہا کہ صارفین سے 61 ارب روپے وصول کرنے کے لیے نیپرا کی جانب سے 3.30 روپے کے پچھلے کیو ٹی اے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن کم ریکوری اور سسٹم لاسز کے سبب اس رقم میں سے تقریباً 20 ارب روپے گردشی قرضے میں شامل ہوگئے تھے۔

سربراہ نیپرا نے مشاہدہ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹیرف کی بحالی سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے کیونکہ کیو ٹی اے کو رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے لیے صارفین سے 43 ارب 34 کروڑ روپے کی اضافی آمدنی درکار تھی جو گزشتہ برس کی اسی مدت کے دوران 14 ارب 30 کروڑ روپے تھی۔

رکن نیپرا رفیق اے شیخ نے کہا کہ اس سے یہ حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب تک طویل مدتی اصلاحات نہیں کی جائیں گی اس وقت تک پاور سیکٹر کو درپیش چیلنجز حل نہیں ہوں گے۔

ڈسکوز کے مطابق سیلاب کی وجہ سے جولائی سے ستمبر کے درمیان ان کی سیلز اور ریکوری میں 5 سے 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ادائیگیوں کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اسے کم یونٹس پر چارج کیا جانا تھا۔

علاوہ ازیں فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کے خلاف ہائی کورٹ کی جانب سے جاری حکم امتناع کی وجہ سے صارفین سے کچھ بل وصول نہیں کیے جاسکے۔

چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی نے کہا کہ جب تک یہ وصولیاں زیر التوا رہیں اس وقت تک بجلی پیدا کرنے والوں کو معاہدوں کے تحت ضرورت کے مطابق وقت پر ادائیگیاں کی جانی تھیں۔

ڈسکوز نے مالی سال 2023 کی پہلی سہ ماہی کے لیے 43 ارب 34 کروڑ روپے کی مشترکہ اضافی آمدنی کے لیے درخواستیں دائر کی تھیں، نیپرا نے کہا کہ وہ شواہد اور ڈیٹا کی اندرونی جانچ کے بعد اپنا فیصلہ جاری کریں گے لیکن یہ اضافہ لائف لائن صارفین کے علاوہ تمام ڈسکوز کے صارفین سے وصول کیا جائے گا۔

علیحدہ علیحدہ درخواستوں کے تحت سب سے زیادہ ریونیو کی ضرورت ملتان الیکٹرک نے (10 ارب 70 کروڑ روپے) مانگی تھی، اس کے بعد لاہور الیکٹرک نے (9 ارب 10 کروڑ روپے) اور پھر فیصل آباد الیکٹرک نے (6 ارب 40 کروڑ روپے) مانگے۔

اسی طرح گوجرانوالہ الیکٹرک نے 5 ارب 34 کروڑ روپے کے اضافی ریونیو کا مطالبہ کیا، اس کے بعد کوئٹہ الیکٹرک نے 3 ارب 66 کروڑ روپے اور اسلام آباد الیکٹرک نے 2 ارب 70 کروڑ روپے کے اضافی ریونیو کا مطالبہ کیا۔

پشاور الیکٹرک، ٹرائبل الیکٹرک، سکھر الیکٹرک اور حیدر آباد الیکٹرک نے بالترتیب 2 ارب اور 13 کروڑ روپے، ایک ارب 28 کروڑ روپے، 90 کروڑ 50 لاکھ روپے اور 45 کروڑ روپے اضافی ریونیو کی ضرورت کی درخواست کی۔

تبصرے (0) بند ہیں