پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ باجوہ نے ڈبل گیم کھیلی، ان کا عجیب رویہ تھا لیکن اس کا فائدہ نہیں ہوا لیکن بے نقاب تو ہوگئے۔

بول نیوز پر پروگرام ’بول عمران خان کے ساتھ میں‘ گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم 66 فیصد پاکستان میں انتخابات کروانے جا رہے ہیں، کیا حکومت چاہتی ہے کہ ملک منجمد ہو جائے کیونکہ جب انتخابات ہوں گے تو وفاقی حکومت بھی الیکشن پر لگ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ کیا یہ حکومت چاہتی ہے کہ 66 فیصد ملک میں انتخابات ہوں اور اس کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ عقل تو یہ کہتی ہے کہ 66 فیصد میں الیکشن ہو رہا ہے تو عام انتخابات کروادیں، اس میں کوئی لمبی بات نہیں ہے، اگر یہ چاہتے ہیں تو ہم مذاکرات کرسکتے ہیں کہ کن تاریخوں پر انتخابات ہوسکتے ہیں۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ بجٹ کے بعد انتخابات کروالیتے ہیں تو اس کے جواب میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت زیادہ سے زیادہ مارچ یا مارچ کے آخر تک انتخابات کروانے کے لیے تیار ہے، تو ہم رک جاتے ہیں، نہیں تو ہم اسمبلیاں تحلیل کرکے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کروا دیں گے۔

وفاقی حکومت کو الیکشن کے انعقاد سے متعلق مذاکرات کی پیشکش کے بعد پی ڈی ایم رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی خواہش کے اظہار پر تنقید سے بچنے کے لیے عمران خان نے وضاحت کرتے ہوئے اصرار کیا کہ ان کی پیشکش کو غلط سمجھا گیا جب کہ انہوں نے ملک کے وسیع تر مفادات میں بات کی۔

’ملک ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ مفتاح اسمعٰیل اور اسحٰق ڈار دونوں ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے، انہوں نے کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرانا ہے، ہمیں یہ کیسے ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟ ہمارے دور حکومت میں سارے معاشی اشاریے مثبت تھے، عمران خان نے کہا کہ ان کو لانے والے زیادہ قصور وار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مذاکرات کی پیش کش کی تھی کہ ہم نے تو 2 صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابات کروانے ہیں۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ مونس الہٰی کہہ رہا ہے کہ ہم سب کو تو جنرل (ر) باجوہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان کے ساتھ جا کر کھڑے ہو جاؤ، اور انہوں نے عمران خان کے لیے دریاؤں کا رخ موڑ دیا تھا، اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ میری والدہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ اس بیچارے (عمران خان) پر فکر ہے، یہ بڑا ہی سیدھا ہے، یہ ہر قسم کی بات مان لیتا ہے، ہر کسی پر بھروسہ کر لیتا ہے، تو یہ بیچارہ تو دنیا میں رل جائے گا۔

’میری کمزوری ہے، لوگوں پر بھروسہ کرتا ہوں‘

ان کا کہنا تھا کہ میں ساری زندگی اپنی ماں کو کہتا تھا کہ مجھے کیا فرق پڑا ہے، جو بھی دنیا کرے، میں تو کامیاب ہو جاتا ہوں، میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ یہ میری کمزوری ہے، میں لوگوں پر بھروسہ کرتا ہوں، یہ دلیر آدمی کی نشانی ہے کہ وہ کسی پر شک نہیں کرتا۔

عمران خان نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ کے ساتھ ساڑھے تین سال گزرے، پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ یہ میری کتنی بڑی کمزوری ہے کیونکہ میں اس پر بھروسہ کر لیتا تھا، جنرل (ر) باجوہ جو بھی مجھے کہتا تھا، میں کہتا تھا کہ ہاں ہم دونوں ملک کے لیے ہیں، ہمارے اور اسٹیبلشمنٹ کے مفادات ایک ہی ہیں کہ ملک کو بچانا ہے، مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ کس طرح مجھے دھوکے دیے گئے، جھوٹ بولے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کے آخری دنوں میں مجھے آئی بی کی رپورٹ آرہی تھی کہ گیم چل رہی ہے، جب مجھے پتا چلا کہ نواز شریف سے ان کی بات چیت چل رہی ہے، خاص طور پر جنرل فیض کو جب ہٹایا، تو ان کا گیم چل پڑا تھا، میں جب جنرل باجوہ سے پوچھوں تو وہ کہتے تھے کہ ہو ہی نہیں سکتا، ہم تو تسلسل چاہتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ بتا دیں کہ ہمارے سارے اتحادی اور اراکین اسمبلی سب کو وہ (اس وقت کی اپوزیشن) یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ فوج چاہتی ہے کہ آپ ادھر چلے جائیں، اور آپ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ شاہ زین بگٹی تو ان کے بغیر ہلتا ہی نہیں تھا، تو ہم حیران ہوتے تھے کہ مجھے کچھ کہتے ہیں اور اُدھر سے کوئی اور سگنل مل رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان کو کہا تھا کہ یہ سمجھ جائیں کہ اگر آپ نے اس وقت حکومت کو ہٹا دیا اور سیاسی عدم استحکام آگیا تو میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ معیشت کو کوئی نہیں سنھبال سکے گا۔

عمران خان نے کہا کہ میں نے ایک دن کہہ دیا کہ سارا واضح ہو گیا ہےکہ آپ نیوٹرل نہیں ہیں، میں نے ان کو کہا تھا کہ کلیئر کردیں کہ آپ ادھر ہیں یا اُدھر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ان کو کہا تھا کہ میں واپس عوام میں چلا جاؤں گا، وہ کہتے تھے کہ فکر ہی نہ کرو، ہم تسلسل چاہتے ہیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، بعد میں پتا چلا کہ میں اکیلا نہیں تھا جس کو لال بتی کے پیچھے لگایا ہوا تھا، انہوں نے کافی لوگوں بشمول اپنے ساتھیوں کے لال بتی کے پیچھے لگایا ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے پتا ہے کہ اس کے پیچھے ہینڈلرز تھے، جب لوگ ہمارے ساتھ آگئے تو انہوں نے اس کے بعد سب سے بڑا ظلم کیا، انہوں نے 7 مہینے ہمارے اوپر جو تشدد کیا، 25 مئی کو جو ہوا، ایسا لگ رہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر ہے، 25 مئی کے حوالے سے ہم نے پولیس سے پوچھا کہ تم نے کیا کیا ہے، وہ کہتے تھے ہمیں اسٹیبلشمنٹ کا پریشر تھا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اعظم سواتی اور شہباز گِل ہمیں کہتے ہیں کہ پولیس نے انہیں اٹھایا، بعد میں انہوں نے پکڑ لیا، اڈیالہ جیل کے لوگ شہباز گِل کو کہتے تھے کہ ہمیں پیچھے سے دباؤ ہے، انہوں نے ہمیں دبانے اور ختم کرنے کی کوشش کی۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ لگتا ہے کہ آپ نے نئی اسٹیبلشمنٹ سے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں؟ کیا آپ کو کسی نے یقین دہانی کروائی ہے کہ اب وہ نہیں ہو گا جو 7،8 مہینے سے ہو رہا تھا، اس کے جواب میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ ہم نے میسج پہنچایا ہے، ڈاکٹر علوی نے بھی بات کی ہے، 7 مہینے میں کیا پارٹی کریش ہو گئی ہے؟ تحریک انصاف تو اور مضبوط ہو گئی ہے، اگر میں آزاد پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں، تو میں ایک مضبوط فوج دیکھنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ مونس الہٰی کو کہا گیا ہو گا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ چلو لیکن جو دوسرا والا (ن) لیگ میں چلا گیا اس کو بھی کہا ہو گا کہ اُدھر (اس وقت کی اپوزیشن) کے ساتھ چلے جاؤ، یہ ڈبل گیم چل رہی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ڈبل گیم کھیلی ہے، وہ کبھی کسی کو کچھ کہے، ہمارے اپنے لوگوں کو کسی کو کوئی پیغام جا رہا ہے، اور کسی کو کوئی اور پیغام جارہا ہے، ان کا عجیب رویہ تھا لیکن اس کا فائدہ نہیں ہوا، بے نقاب تو ہوگئے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہم 66 فیصد پاکستان میں انتخابات کروانے جا رہے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ملک منجمد ہو جائے کیونکہ جب انتخابات ہوں گے تو وفاقی حکومت بھی الیکشن پر لگ جائے گی، کیا یہ (حکومت) چاہتے ہیں کہ 66 فیصد ملک میں انتخابات ہوں اور اس کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ عقل تو یہ کہتی ہے کہ 66 فیصد میں الیکشن ہو رہا ہے تو عام انتخابات کروا دیں، اس میں کوئی لمبی بات نہیں ہے، اگر یہ چاہتے تو ہم مذاکرات کرسکتے ہیں کہ کن تاریخوں پر انتخابات ہوسکتے ہیں۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ بجٹ کے بعد انتخابات کروالیتے تو پھر، اس کے جواب میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ الیکشن تو زیادہ سے زیادہ مارچ یا مارچ کے آخر تک انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں، تو ہم رک جاتے ہیں، نہیں تو ہم اسمبلیاں تحلیل کرکے پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن کروا دیں گے۔

’حکومت کے ہاتھ میں گیم نہیں ہے‘

ان سے سوال پوچھا گیا کہ آصف زرداری کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ آئیں گے، جادو چلا ئیں گے، بندے توڑیں گے، شاید وہ پرویز الہٰی کو بھی قابو کریں گے، اس صورتحال میں آپ کے ہاتھ سے گیم نکل گئی تو، کیونکہ بہت سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو فوری طور پر دونوں اسمبلیاں تحلیل کر دینا چاہئیں، مذاکرات ہوتے رہیں گے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم کرسکتے ہیں، حکومت کے ہاتھ میں گیم نہیں ہے۔

’پرویز الہیٰ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں‘

عمران خان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، میری ان سے طویل بات چیت ہو چکی ہے، یہ واضح ہے کہ انہوں نے پورا اختیار دیا ہے کہ جس دن میں چاہوں گا اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔

ان سے پوچھا گیا کہ آپ اسمبلی کب تحیل کر رہے ہیں، عمران خان نے کہا کہ چار، پانچ دنوں میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنے لوگوں سے مل رہا ہوں، دوسرا دیکھتے ہیں کہ حکومت سے کیا جواب آتا ہے، ہم ان کو موقع تو دے سکتے ہیں کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ اس دوران انتخابات کریں تو اس پر مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

’فوج میں کبھی کسی کو توسیع نہیں ملنی چاہیے‘

عمران خان نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی اور فوج میں کبھی کسی کو توسیع نہیں ملنی چاہیے۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ آج آپ مخالفت کر رہے ہیں جبکہ اس وقت آپ نے توسیع دے دی تھی، اس پر عمران خان نے کہا تھا کہ ہمارے ساتھ اس وقت 100 فیصد تعاون تھا، یہ عجیب چیزیں ہوتی ہیں، تو کام کروانے ہوں تو ایک دم چیزیں ہو جاتی ہیں، فضل الرحمٰن مارچ پر آ گیا تھا، تب مجھے اتنا اندازہ نہیں تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں