صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ اسحٰق ڈار سے ملاقات میں قبل از وقت ملاقات کی بات ہوئی ہے، حکومت اور عمران خان کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔

اے آر وائے کے پروگرام ’رپورٹرز‘ میں بات کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ اسحٰق ڈار کی خوبی ہے کہ وہ مفاہمت کی کوشش کرتے ہیں، اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں تجویز دی ہے، میرا خیال ہے کہ مثبت پیش رفت ہوگی۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ اسحٰق ڈار سے قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے بات ہوئی؟ جس کے جواب میں ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اس سلسلے میں بھی بات ہوئی اور اگر ان کی جماعت راضی ہو جائے تو ممکن ہے کہ وہ کوئی بات کہیں، میں نے آج انہیں کچھ تجاویز دی ہیں۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ سیاسی منظر نامے پر ہیجانی کیفیت ہے اور یہ صورت حال اس وقت ہوتی ہے جب لوگ آپس میں بات نہ کریں، پریشانی تب حل ہوتی ہے جب لوگ بات کریں۔

’آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو۱‘

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا، جو لوگ میرٹ پر تھے وہی لوگ آئے، مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج اچھے ہاتھوں میں ہے۔

صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مستقبل کے حوالے سے تیاریوں کی ذمہ داری ان کے پاس ہوتی ہیں جبکہ چیف آف آرمی اسٹاف موجودہ فوج کے اعتبار سے دفاع کی ساری چیزوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی تھوڑا تھوڑا سا منہ اٹھا رہی ہے، کل کے واقعے کے بعد مجھے اور تشویش ہوئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جو تجربہ ہماری مسلح افواج کا ہے، وہ دنیا میں کسی کا نہیں ہے، چاہے سپر پاورز ہوں، مگر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے کوئی فوج اتنی تربیت یافتہ نہیں ہے۔

’قبل از وقت انتخابات بہترین حل ہوسکتا ہے‘

صدر عارف علوی نے کہا کہ اب معاملہ صرف معیشت کا نہیں ہے، لوگوں کو اعتماد بھی ہونا چاہیے کہ حکومت ہمارے مینڈیٹ کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ قبل از وقت انتخابات معاملے کا بہترین حل ہوسکتا ہے۔

آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے عمران خان سے مشاورت سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس وقت عمران خان اور پی ٹی آئی کی مقبولیت بہت اچھی ہے، جب انگلینڈ میں مشاورت ہو رہی تھی، تو یہاں پر موجود عوامی طاقت سے مشورہ نہ کیا جانا مناسب نہیں تھا، میں نے انہیں دو، تین دن پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ سمری آئے گی تو آپ (عمران خان) سے مشاورت ضرور کروں گا۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ آپ نے کیوں اصرار کیا کہ سمری پر دستخط کرنے سے پہلے نامزد آرمی چیف سے ضرور ملوں گا؟ اس کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ اچھا طریقہ ہے کہ ملاقات ہو جائے اور کوئی خاص بات نہیں تھی۔

’مارشل لا لگنے کا کوئی امکان نہیں‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مارشل لا نہیں لگ سکتا، جمہوریت مستحکم ہو گئی ہے تو مارشل لا لگنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

’پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا‘

وزیرخزانہ سے ملاقات سے متعلق سوال کے جواب میں ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کے ساتھ معیشت پر بھی بات ہوئی، انہوں (وزیر خزانہ) نے کہا تھا کہ یہ جو ہر وقت ڈیفالٹ، ڈیفالٹ کی بات آتی ہے، اس سے پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچتا ہے، میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان ان شا اللہ ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔

’بازاروں کے رات کے اوقات محدود کیے جائیں‘

ان کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار نے مجھ سے ذکر کیا کہ درآمدات پر کچھ پابندیاں لگانا چاہتے ہیں، میں نے انہیں تجویز دی کہ توانائی کو بچانا چاہیے، اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بازاروں کے رات کے اوقات کو کم کیا جائے، ہم صبح سوتے رہیں اور رات کو بتیاں جلائیں جو بڑی مہنگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے 3، 4 ہزار میگا واٹ بچا سکتے ہیں، جس سے پاکستان کے بجلی کے بل میں بہت بڑا فرق پڑے گا، جب ملک بحران میں ہے تو یہ کیوں نہیں کرسکتے۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ اسحٰق ڈار سے قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے بات ہوئی؟ جس کے جواب میں ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اس سلسلے میں بھی بات ہوئی، اور اگر ان کی جماعت راضی ہو جائے تو ممکن ہے کہ وہ کوئی بات کہیں، میں نے آج انہیں کچھ تجاویز دی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ (عمران خان کی حکومت کے ساتھ) ملاقات ضرور ہو، جس کے اندر تمام چیزوں پر تبادلہ خیال کیا جائے اور ملاقات میں قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے بھی بات چیت کی جائے۔

صدر مملکت نے کہا کہ اسحٰق ڈار کی خوبی ہے کہ وہ مفاہمت کی کوشش کرتے ہیں، اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں تجویز دی ہے، میرا خیال ہے کہ مثبت پیش رفت ہوگی۔

’نئی فوجی قیادت سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے‘

عمران خان کی جانب سے آپ کے ذریعے نئی آرمی قیادت کو پیغام بھجوانے سے متعلق سوال کے جواب میں عارف علوی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ نئی فوجی قیادت سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے، یہ بات میں نے اسحٰق ڈار کو کہی کہ اب ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اور اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے قدم اٹھائیں، مسائل پیدا نہ کریں، وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ فوج سیاست سے دور ہے اور دور ہونا چاہتی ہے۔

عمران خان کی جانب سے سابق آرمی چیف پر ڈبل گیم کے الزام سے متعلق سوال پر صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے تجربے کی بنیاد پر بات کہی ہے، وہ اس سلسلے میں زیادہ واقف ہیں کہ کیا ڈبل میسجنگ ہوئی ہے، میں سمجھتا ہوں آپ ان سے ہی مزید تفصیلات لے سکتے ہیں۔

ارشد شریف کے قتل کی رپورٹ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ میں نے رپورٹ تو نہیں پڑھی تاہم تبصرے دیکھے، اس میں بہت سارے سوالات اٹھے ہیں، وہ رپورٹ کہتی ہے کہ منصوبہ بندی کرکے قتل کیا گیا ہے لہٰذا بڑی فکر کرنی چاہیے، کچھ نہ کچھ، کہیں نہ کہیں کسی نتیجے پر پہنچیں، تحقیقات ہمیں صحیح جگہ پر نہیں لے جاتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر آباد میں عمران خان پر حملے کی اب تک کوئی رپورٹ نہیں آئی ہے اور بہت سنجیدہ مسئلہ ہے کہ سابق وزیراعظم پر حملہ ہو، آپ صرف تصور کریں کہ اگر کسی سیاسی رہنما کا قتل ہوتا تو ملک میں کیا افراتفری ہوتی، بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا تھا تو اس وقت پاکستان کھپے کا نعرہ لگا، ورنہ پاکستان کا برا حال ہو جاتا۔

’عمران خان اور سابق آرمی چیف کے درمیان ملاقات میں تناؤ کا ماحول نظر نہیں آیا‘

صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ عمران خان کی سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقات میں تناؤ کا ماحول نظر نہیں آیا، عمران خان جیسے ہیں، ویسے ہی تھے، ان کو یہ تکلیف تھی کہ تحریک عدم اعتماد، کیوں اور کیسے آئی۔

’اسمبلی سے باہر آنے کے بعد قوم نے عمران خان کے ساتھ اور وفاداری دکھائی‘

ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی عمران خان کو اتنی تکلیف تھی کہ وہ اسمبلی سے باہر آگئے، لوگ کہتے ہیں کہ اسمبلی سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا، میں سمجھتا ہوں کہ قوم نے ان کے ساتھ ہے اور وفاداری جب دکھائی ہے جب وہ اسمبلی سے باہر آگئے، میں بہت دنوں سے کہتا رہا کہ دیکھو کتنا نقصان ہوا، ان جماعتوں کو بھی نقصان ہوا، اب انتخابات کے حوالے سے تیار نہیں ہو رہیں۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ اسی وقت انتخابات ہو جاتے تو اچھا تھا، میں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ سپریم کورٹ نے اس آپشن کو دیکھا، چیف الیکشن کمشنر کو بلایا، ان سے پوچھا اسی طرح میرا خیال ہے کہ شہباز شریف کو بلا کر بھی فوری انتخابات کے حوالے سے پوچھا، اگر یہ (موجودہ حکومت) اس وقت تیار ہو جاتی تو کم از کم اگلے پانچ سال تو پی ٹی آئی کے نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا تھا حکومت اور وزیراعظم کو بچلی بچانے کے حوالے سے اقدامات کرنا چاہیں اس کے بعد اپوزیشن سے بھی درخواست کریں کہ اس چیز میں ہماری مدد کرو، میں کہتا ہوں کہ بیٹھ کر بات کریں گے تو پاکستان کے لیے تعمیری چیز نکل سکتی ہے۔

آرمی چیف کی تعنیاتی میں تنازع سے بچنے کے لیے قانون سازی سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے ادارہ محسوس کرتا ہو کہ کچھ نمبر قابلیت کے ہونے چاہئیں، کچھ نمبر سنیارٹی کے ہونے چاہئیں، اس حوالے سے ادارہ اپنے خیالات سے اراکین اسمبلی کو آگاہ کرے گا جس کے بعد اراکین اسمبلی بحث کرکے فیصلہ کرلیں تاکہ یہ تنازع کم سے کم ہو جائے۔

’فوج ہمارا بہترین اثاثہ ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ سوچ کے اعتبار سے نئے آرمی چیف مجھے اچھے لگے، فوج ہمارا بہترین اثاثہ ہے، فوج اور عوام کا بحران اور ہر جگہ گہرا تعلق ہے، فوج کی عوام میں مقبولیت 80 سے 82 فیصد ہوتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہی ہونی چاہیے۔

عارف علوی نے کہا کہ میری اعظم سواتی کے حوالے سے سابق آرمی چیف سے کافی بات بھی ہوئی تھی، عمران خان نے پچھلے دنوں خط لکھا تھا جس میں ارشد شریف کے حوالے سے یاد دہانی کروائی تھی، میں نے اچھے الفاظ کے ساتھ اس کو وزیراعظم ، وزارت دفاع کو بھی بھیجا، اور کہا تھا کہ یہ فوجی قیادت کو بھی بھیجیں تاکہ غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا کیا تک بنتا ہے کہ آدمی نے واقعہ یہاں کیا، سندھ میں چار ایف آئی آرز کٹ گئیں، توہین عدالت پر کورٹس توجہ دیتی ہیں، یہ بھی تو عوام کی توہین ہے، عدالتوں کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

’قانون سے ہٹ کر کسی کے خلاف کارروائی نہ ہو‘

ان کا کہنا تھا کہ پکڑنا پہلے ہے، اور قانون بعد میں تلاش ہوتا ہے، عارف علوی کو عدالت میں دہشت گرد عدالت میں کھڑا کر دیا، یہ انصاف کے اعتبار سے ٹھیک نہیں ہے، جس نے جو کچھ بھی کہا، قانون سے ہٹ کر کسی کے خلاف کارروائی نہ ہو، قانون کے بغیر کسی کو کچھ دنوں کے لیے اٹھوایا، غائب کر دیا، پٹوایا ان سب چیزوں سے پاکستان کو نکل جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ (عمران خان) اسمبلی چھوڑ رہے تھے، اگر وہ مجھ سے پوچھتے تو ان کو مشورہ دیتا کہ اسمبلی میں بیٹھے رہیں، مگر اللہ نے ان کے لیے اس فیصلے میں برکت ڈالی کہ وہ اسمبلی چھوڑ کر چلے گئے، ان کی سیاسی دانش اچھی ہے، اب انہوں نے صوبائی اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی امید یہ ہے کہ اتنے سارے انتخابات کرانے کے بجائے اکٹھا کروا لو۔

ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان گفتگو ٹھنڈک پیدا کرے گی، پھر آپس میں طے کر کے انتخابات کروا لیں۔

تبصرے (0) بند ہیں