تین برسوں میں تعلیمی اداروں پر ایک ہزار سے زائد حملے ہوئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2022
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قرآن پاک کے مطابق مرد، عورتوں کے محافظ ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قرآن پاک کے مطابق مرد، عورتوں کے محافظ ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آئین میں انسانی حقوق کو بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور آئین کا آرٹیکل 25 لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو تعلیم کا حق دیتا ہے، اس کے باوجود گزشتہ 3 برسوں کے دوران ملک بھر میں تعلیمی اداروں پر ایک ہزار سے زائد حملے کیے گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ عالمی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد (آئی آئی یو آئی) خواتین کیمپس میں پارلیمنٹرینز کمیشن فار ہیومن رائٹس (پی سی ایچ آر) کے تعاون سے انسانی حقوق کے عالمی دن کے سلسلے میں منعقدہ قومی سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔

ہفتے کے روز دنیا بھر میں ’وقار، آزادی اور انصاف سب کے لیے‘ کے عنوان سے عالمی دن منایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسلام ایک جامع اور ایسا مذہب ہے جس میں کسی انسان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ جاہل مرد ہی عورتوں پر تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قرآن پاک کے مطابق مرد، عورتوں کے محافظ ہیں، اسلام انسانیت کو ذات پات، مذہب اور رنگ کی تفریق کے بغیر عزت، آزادی اور انصاف دینے کی بہترین مثال ہے۔

یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ مہمان خصوصی تھے جب کہ چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت سید محمد انور، وزیر سیفران محمد طلحہٰ محمود اور وفاقی محتسب کشمالہ خان نے بھی تقریب میں شرکت کی۔

پی سی ایچ آر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد شفیق چوہدری نے تقریب سے اپنے ابتدائی خطاب میں کہا کہ انسانی حقوق کا عالمی ڈیکلیریشن اب بھی اتنا ہی قابل عمل اور ضروری ہے جتنا کہ 1948 میں اس دن تھا جب اقوام متحدہ نے اس کا اعلان کیا تھا اور اسے منظور کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے تحفظ پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے اور تعلیمی ادارے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے شعور و آگاہی پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے کہا کہ انسانی حقوق کا عالمی ڈیکلیریشن ایک جامع مسودہ ہے جسے آئین پاکستان میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بحیثیت قوم اپنی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اپنی خامیوں پر بھی بات کرنی ہے، وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا ہے کہ گھریلو تشدد سے متعلق قوانین میں اسلامی تعلیمات کے خلاف کوئی شق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گھریلو تشدد غیر اخلاقی اور غیر انسانی فعل ہے جسے ختم ہونا چاہیے، انسانی حقوق اور اسلام ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں، اسلام میں گھریلو تشدد ممنوع ہے جبکہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ خواتین کے ساتھ خوش اخلاقی اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔

وفاقی وزیر سیفران نے کہا کہ ملک میں خواتین کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے، اسلام امن اور خوشحالی کا مذہب ہے جو خواتین کو آزادی اور وقار فراہم کرتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں