پی ٹی آئی کے زیر اقتدار صوبوں کا وفاق سے ’واجب الادا‘ فنڈز کی ادائیگی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 12 دسمبر 2022
پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا کہ وفاقی حکومت  صوبوں کو ان کے مختص فنڈز سے محروم کر رہی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کو ان کے مختص فنڈز سے محروم کر رہی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، آزاد جموں و کشمیر اور پنجاب کے وزرائے خزانہ نے وفاقی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صوبوں کو ان کے جائز فنڈز سے محروم کر رہی ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان، صوبائی وزیر خزانہ تیمور خان جھگڑا، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان، آزاد جموں و کشمیر کے وزیر خزانہ عبدالمجید خان اور وزیر خزانہ پنجاب محسن لغاری نے اسلام آباد میں منعقدہ مشترکہ پریس کانفرنس میں مرکزی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کو متعدد خطوط لکھے جس میں اپنے مالی مسائل سے آگاہ کیا ہے اور ان مسائل کو حل کرنے کی درخواست کی، لیکن مرکزی حکومت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے رواں مالی سال کے لیے 13 کھرب روپے کے بجٹ کا اعلان کیا، بجٹ میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ویژن کے مطابق عوام اور ترقیاتی اسکیموں پر سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کی گئی جب کہ اب یہ منصوبے تکمیل کے قریب ہیں، لیکن بدقسمتی سے وفاق کی جانب سے ہمیں فنڈز جاری نہیں کیے جارہے۔

محمود خان نے مزید کہا کہ ان کی صوبائی حکومت کو اس وقت سے مشکلات کاسامنا ہے جب سے اپریل میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں آج وفاقی حکومت کو خبردار کر رہا ہوں کہ ہمیں واجبات، ہمارے پیسے دیے جائیں جو کہ ہمارا حق ہے، ہم خیرات نہیں مانگ رہے۔

انہوں نے ضم شدہ قبائلی علاقوں کے لیے فنڈز جاری کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا، انہوں نے کہا کہ ضم شدہ قبائلی علاقوں کے لیے فنڈز جاری نہ کرنا خطرناک ہے، انہوں نے الزام لگایا کہ وفاقی حکومت نے ان علاقوں کے بجٹ میں کمی کردی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ضم شدہ اضلاع کا موجودہ بجٹ 60 ارب روپے ہے جب کہ ان علاقوں کے لیے ہماری ضرورت 85 ارب روپے ہے، خیبر پختونخوا حکومت کو ضم شدہ علاقوں میں صحت کارڈ پروگرام کے لیے مختص 4 ارب 50 کروڑ روپے اور بے گھر افراد کے لیے 17 ارب روپے بھی ادا نہیں کیے جارہے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں وفاقی حکومت کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ڈی ایس پی) کے تحت خیبر پختونخوا کے لیے مختص کیے گئے تمام منصوبوں کو ختم کردیا گیا اور اس اقدام کے تحت صوبے کے لیے مختص فنڈز میں نمایاں کمی کردی گئی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ہمیں ’خود مختار گارنٹی‘ بھی نہیں دے رہی کہ ہم کسی تیسرے فریق سے قرض لے سکیں، ہم کہاں جائیں؟

محمود خان نے دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا میں سیلاب کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے 10 ارب روپے دینے کا وعدہ نہیں کیا گیا تھا۔

انہوں نے وفاقی حکومت سے خیبر پختونخوا حکومت کے واجبات ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کیا خیبر پختونخوا پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو ہمیں ہمارا حق دیا جائے، اگر وفاقی حکومت نے ہمیں ہمارا حق نہ دیا تو ہم قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس سلسلے میں خیبر پختونخوا میں اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل ہے اور اگر دھرنے کے بعد بھی فنڈز جاری نہ کیے گئے تو ہم خیبر پختونخوا سے عوام کے ساتھ اسلام آباد لائیں گے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت نے ہمیں ہمارا حق نہیں دیا تو ہم چھینیں گے، خیبر پختونخوا حکومت اس معاملے پر وفاقی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔

اس موقع پر فنڈز روکے جانے پر شکایات کا اظہار کرتے ہوئے محمود خان کے ہمراہ موجود وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کہا کہ رواں سال دیگر تمام علاقوں کے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا گیا لیکن گلگت بلتستان کا 40 ارب روپے کا بجٹ کر کے 25 ارب روپے کر دیا گیا۔

انہوں نے اس اقدام کو خطے کے ساتھ دشمنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا، وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ میں گلگت بلتستان کے لیے اے ڈی پی کے تحت صرف 2 ارب 80 کروڑ روپے جاری کیے جو کہ ہماری ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔

وزیراعلیٰ خالد خورشید نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت گلگت بلتستان میں ایک بھی ایسا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا کہ ہمارے انتظامی یونٹ کے لیے مطلوبہ بجلی پیدا کی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ علاقے کو گھنٹوں لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، گلگت بلتستان حکومت کے پاس ڈیزل جنریٹر چلانے کے لیے بھی پیسے ختم ہوگئے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کیا جا سکے۔

انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کے لیے گندم کی سبسڈی میں کمی کر دی ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ اب بجلی اور گندم کا بندوبست کہاں سے کریں؟

وزیر اعلیٰ نے اس بات کی بھی مذمت کی کہ گلگت بلتستان کو سیلاب کے بعد کی صورتحال اور تباہی سے نمٹنے کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمیں 40 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز دینے کا وعدہ کیا لیکن ان وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا۔

خالد خورشید نے کہا کہ گلگت بلتستان کی حکومت کے پاس اب ہڑتال کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔

انہوں نے کہا کہ ہم پورے گلگت بلتستان میں ہڑتال کریں گے اور اگر ممکن ہوا تو ہم اسلام آباد میں بھی لوگوں کو لائیں گے، ہم کابینہ کا اجلاس قومی اسمبلی کے باہر کریں گے، وفاق پر مسلط حکمرانوں نے مذاق بنادیا ہے۔

اس موقع پر وزیر خزانہ پنجاب محسن لغاری نے کہا کہ مرکزی حکومت نے صوبے کو 176 ارب 40 کروڑ روپے کی رقم ادا کرنی ہے اور وفاقی حکومت صحت کارڈ پروگرام کے لیے پنجاب حکومت اور اسٹیٹ لائف انشورنس کے ساتھ سہ فریقی معاہدے کے تحت اپنا بھی حصہ ادا نہیں کر رہی۔

صوبائی وزیر خزانہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاق نے پنجاب کو کوئی فنڈز جاری نہیں کیے جب کہ صوبے کو قومی اقتصادی کونسل کی حالیہ ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے دوران منظور کیے گئے انفرااسٹرکچر کی بحالی کے منصوبوں سے محروم رکھا گیا۔

ریاستی گارنٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے گریٹر تھل کینال کی تعمیر کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرض کے لیے معاہدے پر دستخط نہ کرنے پر وفاقی حکومت پر تنقید کی۔

محسن لغاری نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی، مرکزی صوبوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کر رہی ہے جیسا کہ وہ دشمن ہوں۔

اس دوران آزاد جموں و کشمیر کے وزیر خزانہ عبدالمجید خان نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے آزاد جموں و کشمیر کو نشانہ بنایا اور 2018 کے مالیاتی معاہدے کے تحت اپنی گرانٹ ادا کرنے میں ناکام رہی۔

فنڈز کی کمی کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر حکومت کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے موجود فنڈز بھی ختم ہونے والے ہیں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ عمران خان کی حکومت نے آزاد جموں و کشمیر کے ترقیاتی بجٹ کے تحت لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پیکج کا اعلان کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لائن آف کنٹرول ہماری اولین دفاعی لائن ہے اور لائن آف کنٹرول کے ساتھ رہنے والی سول آبادی آپ کی پہلی دفاعی لائن ہے۔

عبدالمجید خان نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد ایل او سی کے لیے مختص رقم میں نمایاں کمی کر دی گئی۔

انہوں نے آزاد کشمیر کے لیے پی ایس ڈی پی فنڈز میں کمی کی مذمت کی اور کہا کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا، اب ان کے پاس پرامن احتجاج کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اپنے لوگوں کے حقوق کا مطالبہ کرنا بغاوت ہے اور وفاقی حکومت اس کی اجازت نہیں دیتی تو ہم ایسا بار بار کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں